تحریر سائرس خلیل
تاریخ بتاتی ہیکہ ایک سوسال بعد 2005 میں ریاست جموں کشمیر کہ صوبہ جموں میں زلزلہ آیا ۔ جسکی وجہ سائنسی ماہرین کہ مطابق زیر زمین پلیٹوں کی ساخت میں تبدیلی ہے۔ پلیٹوں کی ساخت کی تبدیلی کی بنیاد پر زمیں میں لہریں پیدا ہوتی ہیں جوکہ زلزلہ کی وجہ بنتی ہیں۔ یہ زلزلہ اس وقت تک جاری رہتے ہیں جب تک کہ پلیٹوں کی ساخت مکمل تبدیل نہ ہوجائے یا پھر کسی نئی شکل کی جانب اپنے مراحل طے نہ کر لیں۔
ریاست جموں کشمیر کے صوبہ جموں کہ چند اضلاع میں ایک سو سال بعد آٹھ اکتوبر 2005 کو 17 سیکنڈ کے زلزلے نے آزاد کشمیر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ مجھے تیسرے رمضان کی وہ صبح اچھے سے یاد ہے جس رات امی سے ضد کر بیٹھا تھا کہ صبح روزے کیلیئے جگا دیجیئے گا مگر ممتا کو کہاں گوارہ کہ ایک چھٹی کلاس کا طالب علم پورا دن بھوکا پیاسا سکول میں گزارے؟ امی نے مجھے سحری کہ بعد نماز کہ لیئے جگا دیا۔ سحری کا وقت ختم ہونے پرمیں شدید ناراض تھا جبکہ امی مجھے اپنے ممتا بھرے پیار سے تسلی دینے کی کوشش کرتی رہیں۔ خیر امی کہ ہاتھ کا آلو پراٹھا اور چائے ناشتہ میں لینے کہ بعد ہم سکول کی طرف روانہ ہوئے مگر چند ہی پل گزرے تھے کہ وہ گھڑی آن پہنچی جسکا کسی کو علم تک نہ تھا۔ ایسی منحوس گھڑی جس نے ہمارے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا دیا، جس نے ہزاروں عورتوں کو بیوہ کر دیا ، جس نے ہزاروں بچوں کو یتیم کر دیا ، بہنوں کو لاوارث کر دیا اور ہزاروں کو بے گھر،
میرے دو چچا، ایک کزن اور امی جان اور دیگر عزیز و اقارب بھی اس منحوس گھڑی کی نظر ہوئے۔ ریاست کہ پاس کوئی خاص اعداد و شمار نہیں مگر ہمارے ایک صحافی دوست دانش ارشاد کی ایک رپورٹ کہ مطابق 86 ہزار افراد کی اموات واقع ہوئیں، 70ہزار افراد زخمی ،33لاکھ افراد بے گھر اور سینکڑوں افراد لاپتہ ہوئے، جن کا پاکستانی کالونی آزاد کشمیر کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی عمارتیں زمین بوس تھیں جو کہ آج تک تعمیر نہ ہوسکیں۔ بہرحال زلزلہ کہ نام پرپاکستان نے عالمی سطح پر اور اندرونِ ملک خوب چندے کا پروپیگنڈہ کیا۔
بیرون ملک سےکھربوں ڈالر کمائے گئے جبکہ اندورون پاکستان میں بھی عام آدمی نے کوئی کثر نہ چھوڑی، عوارتوں نے اپنے زیورات تک اتار کر بھیج دئیے مگر جن کہ نام پر مال و اسباب بنائے گئےان کو ٹرک کی بتی کہ پیچھے لگا دیا گیا۔ اسلامک ریلیف ،اور ایرا کہ نام سے ادارے بنا کر ان کو آزاد کشمیر میں تعمیرات کی ذمہ داری دے دی گئی۔ بیرونی و اندرونی امداد کا بھی کوئی مناسب حساب کتاب نام نہاد ریاست آزاد کشمیر کہ پاس موجود نہیں ہے۔ قارین نوٹ فرمائیں کہ ریاست کہ پاس نہ تو مرنے والوں کا کوئی حساب کتاب ہے اور نہ لاپتہ افراد کا اور نہ ہی انکو بیرونی و اندورنی امداد کا علم ہے۔اس بات سے ریاست کے اختیار اور قابلیت کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں۔ جس پر جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی اور دیگر ترقی پسند قوتوں کا موقف بہت پہلے سے واضح ہے۔
2005 کے زلزلہ اور ہمارے عزیزوں کی لاشوں پر ۵ ارب ڈالر کہ قریب اگھٹے کیے گئے۔ کھربوں روپے تعلیم و صحت کے نام پر مانگ کر لائے گئے، جو کہ آزاد کشمیر نامی خطہ میں لگتے ہوئے کہیں نظر نہیں آئے مگر اسلام آباد کی ایکسپریس وئے اور آئی ایم ایف کا قرضہ ضرور ختم ہوتے نظر آیا۔بہرکیف تحقیق سے معلوم پڑتا ہیکہ زلزلہ سے ہونے والے نقصانات کی وجہ فطرت کم اور ریاستی غلامی اور نااہلی زیادہ ہے۔ غیر سائنسی بنیادوں پر بنائے گئے گھر اس قدر خوف زادہ تھے کہ بیرون ملک سےآٓئے ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ زلزلہ اگر نہ بھی آ تا تو یہ لوگوں گھروں کی چھتوں تلے دب کر مرجانے تھے۔
ماہر ارضیات کی رپورٹ کہ مطابق اس خطہ میں اگلے ایک سو سال تک مزید زلزلہ وقفے وقفے سے آتے رہیں گئے۔ ریاستی بے بسی کہی جائے یا ریاستی غلامی مگر 2005 سے پہلے بھی ریاست اس قابل نہ تھی کہ مکینوں کو بہتر گھر مہیا کرتی اور آج بھی گھروں کی تعمیر بغیر کسی نقشہ اور سائنس کہ ہو رہی ہے۔ مظفرآباد میں جاپان کی ایک ریسرچ اکیڈمی کے تھیسس کے مطابق زمینی ساخت رہائش کے لیئے موضوع نہیں مگر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نئی کالونیوں کو اسی جگہ تعمیر کیا جارہا ہے۔ اور اسکی وجہ پوری دنیا سے ایک دفعہ پھر معصوموں کی جانوں کی قیمتیں وصول کرنے کی ہے۔ سابقہ اور آنے والے وقتوں میں ہونے والے نقصانات کی ذمہ دار صرف غاصب ریاست اور اسکا مقامی گماشتہ طبقہ ہی ہوگا۔ اسکی وجہ ہماری ریاستی غلامی، اختیارات کا نہ ہونا اور ریاستی اداروں و اثاثوں کا بنجر ہونا ہے۔
کراہ ارض پر ہر روز کہیں نا کہیں فطرت کے احسانات اور جبر کا انسان کے ساتھ ٹکراؤ نظر آتا ہے۔ مگر جیت سماجی ترقی پر انحصار کرتی ہے۔ سماج کی ترقی کسی بھی معروض میں سائنسی ترقی پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر جاپان جیسے ملک میں زلزلہ آتے ہیں تو وہاں نقصانات کا اندیشہ ایک فیصد بھی مشکل سے ہوتا ہے۔ جبکہ وہی زلزلہ اگر قومی غلامی میں جکڑی آزاد کشمیر نامی ریاست میں آتا ہے تو وہاں ایک فیصد بچت کی گنجائش بھی موجود نہیں ہوتی۔ اسکی وجہ ریاست کی غلامی کہ علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتی اور نہ ہی کوئی اور وجہ ہے۔
جب تک ریاست کو بیرونی تسلط سے آزاد کروا کر عام شہری کہ ہاتھ میں اقتدار نہیں دیا جاتا تب تک غلامی، جبر، استحصال اور ظلم مقدر بنا رہے گا۔