کسی نے عمران خان کو کمزور کرنے کی کوشش کی تو ہمیں بطور صحافی عمران خان کا ساتھ دینا ہو گا،کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے منتخب حکومت کو نقصان پہنچانا درست نہیں، معروف تجزیہ گار انصار عباسی کا تبصرہ
معروف صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا اپوزیشن کو ڈھیل دی جاتی ہے تو بطور صحافی ہمارا کردار وہ نہیں ہونا چاہئیے جو ہم نے پچھلے کچھ عرصے میں ادا کیا ہے۔ہمیں ایسی صورتحال میں عمران خان کا ساتھ دینا چاہئیے۔انہوں نے مزید کہا کہ جو سیاسی پارٹی اس طرح سے کسی نان ڈیموکریٹک اداروں کے ساتھ مل کر منتخب حکومت کو نقصان پہنچانا چاہئیے تو ایسی صورتحال میں ہمیں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئیے۔انصار عباسی کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں جو بھی سویلین حکومت ہو اس کا ساتھ دینا چاہئیے۔انصار عباسی کا عمران خان کی وکٹری سپیچ سے متعلق کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں پاک بھارت تعلقات سے متعلق بات کی لیکن کلبھوشن کا ذکر نہیں کیا تو اس بنیاد پر اسے غدار کہنا درست نہیں۔عمران خان کو حکومت چلانے دیں اور جن کو پہلے غدار قرار دے دیا گیا ہے ان کے خلاف ثبوت لے کر آئیں اور انہیں سزا دیں۔یاد رہے الیکشن 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف نے واضح برتری حاصل کی ہے۔لیکن کئی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ ا س الیکشن میں عمران خان کو جتوانے کی کوشش کی گئی ہے۔گزشتہ روز آل پارٹی کانفرس بھی بلائی گئی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اے پی سی میں دس سیاسی جماعتوں نے الیکشن نتائج مسترد کرکے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔جب کہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے مزید 6 آزاد اراکین نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ پیر کوتحریک انصاف کے مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے جاری بیان کے مطابق پنجاب اسمبلی کے مزید آزاد اراکین نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف سے بنی گالہ میں ملاقات میں شمولیت کا اعلان کیا، ان میں نو منتخب رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل، سعید اکبر نوانی اور امیر محمد خان جن کا تعلق بھکر سے ہے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔
Load/Hide Comments