کہا تو یہ جاتا ہے کہ نیکی کر دریا میں ڈال ، یعنی نیکی کر کے اس کے صلے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے مگر ایک پاکستانی نژاد برطانوی لڑکی کو نیکی کا صلہ بغیر طلب کئے ایسا ملے گا اس نے سوچا تک نہیں تھا۔ عارفہ اکبر نامی پاکستانی لڑکی نے لندن کے شمال مغربی علاقے میں ایک نیا فلیٹ خریدا جس سے دو منزل نیچے روسالنڈ ہیبنز نامی خاتون کا فلیٹ تھا۔پینسٹھ سالہ روسالنڈ اس فلیٹ میں اکیلی رہتی تھی۔ عارفہ نے جب فلیٹ خریدا تو اس کے فلیٹ کی سابق مالک ہولی نے عارفہ کو روسالنڈ کے مزاج کے متعلق کچھ اچھی خبر نہیں دی تھی لیکن جب عارفہ کا روسالنڈ کے ساتھ پہلی بار آمنا سامنا ہوا تو اسے لگا کہ روسالنڈ دوستانہ مزاج کی خاتون ہے۔ یوں ان دونوں کی اکثر گپ شپ رہنے لگی۔روسالنڈ کبھی کبھار عارفہ کے ہاتھ کوئی سودا سلف منگوا لیتی یا پھر اپنی غیرموجودگی میں اسے اپنے پودوں کو پانی دینے کی ذمہ داری دے دیتی۔ کچھ عرصہ قبل روسالنڈ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئی او رچونکہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہ تھاچنانچہ عارفہ نے اپنے باپ کے کیئر ہوم سے اس کے لیے ایک نرس کا انتظام کیا جو کئی ہفتے تک اس کے ساتھ رہی اور اس کی دیکھ بھال کرتی رہی۔ پھر وہ نرس چھٹیوں پراپنے آبائی ملک فلپائن چلی گئی اور اس کے بعد روسالنڈ نے کوئی اور نرس لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے کچھ دن بعد ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔عارفہ کو اس شفیق دوست کی رحلت پر انتہائی دکھ ہوا، تاہم وہ اپنی زندگی میں مگن ہو گئی۔ اسی طرح ایک سال گزر گیا اور پھر ایک روز عارفہ کو ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط عدالت کی طرف سے تھا جہاں روسالنڈ کے چھوڑے ہوئے ترکے کا تصفیہ کیا گیا تھا۔ اس خط میں روسالنڈ کی وصیت کی کاپی بھی موجود تھی جس کے مطابق روسالنڈ نے اپنے 10لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 17کروڑ روپے) مالیت کےفلیٹ میں عارفہ کو بھی ایک حصہ دے رکھا تھا۔عارفہ کے مطابق وہ اپنی نوکری بغیر کسی منصوبہ بندی کے چھوڑ چکی تھی اور شدید معاشی مشکلات میں گھر چکی تھی اور ایسے وقت میں روسالنڈ کی وصیت کے مطابق فلیٹ میں سے حصہ ملنا اس کیلئے ایسا ہی تھا کہ جیسے ڈوبنے والے کو کوئی سہارا مل جائے۔ عارفہ کا کہنا تھا کہ میرا اب یہ ماننا ہے کہ نیکی کبھی ضائع نہیں ہوتی وہ کسی نہ کسی شکل میں اچانک آپ کی مشکل میں آپ کیلئے سہارا بن کر سامنےآجاتی ہے۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments