ناروے کے سرد ترین پہاڑے قبضے لونگ ائیر بائن کی انتظامیہ نے قصبے کی حدود میں لوگوں کے مرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ قریب المرگ اور بیماری افراد اور ان کے لواحقین کو مطلع کر دیا گہا ہے کہ جتنی جلد ہو سکے مرنے کیلئے کسی اور علاقے میں چلے جائیں۔ اگر وہ اس قصبے میں وارننگ کے باوجود مر گئے تو حکومت مرنے والوں کے لواحقین پرجرمانہ عائد کر دے گی۔ جبکہ قصبے کی حدود میں تدفین پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ لونگ ائیر بائن میں
چونکہ اوسطاََ درجہ حرارت منفی 18سے 20ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اس لئے مدفون لاشیں سو سال تک بھی گل کر خاک نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ برس ہا برس پرانی ’’تازہ لاشیں‘‘کھانے کیلئے جنگلی جانور اکثر مقامی قبرستان پر یلغار کر دیتے ہیں۔ ان کی ’’ضیافت‘‘سے بچ جانے والی لاشیں نہ صرف وبائی امراض پھیلانے کا سبب بن سکتی ہیں بلکہ دیکھنے والوں پر قصبے کا اچھا تاثر بھی نہیں چھوڑتیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل آن لائن نے ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسکینڈے نیو بن ملک ناروے کا پہاڑی قصبہ لوگ ائیر بائن انتہائی خوبصورت اور دلکش نظارے لئے ہوئے ہے۔ یہاں ملکی و غیر ملکی سیاح جوق در جوق آتے ہیں۔ تاہم اب قصبے کی انتظامیہ نے مقامی افراد اور سیاحوں کو متنبہ کر دیا ہے کہ یہاں مرنا منع ہے۔ اس حسین جگہ پر مرنے والے کے لواحقین کو نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا بلکہ میت کو دفن کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ نارویجن قصبے میں مرنے پر پابندی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ شدید سردی کے سبب قصبے میں دفنائی جانے والی لاشیں کئی دہائیوں تک ’’ڈی کمپوز‘‘رہتی ہیں۔ یعنی یہ گل کر خاک میں مل کر خاک نہیں ہوتیں۔ گزشتہ 78سال کا ریکارڈ بتاتا ہےکہ یہاں دفنائی جانے والی لاشیں اب تک سلامت ہیں۔ اس وجہ سے انہیں کھانے کیلئے جنگلی جانور اکثر قبرستان پر یلغار کرتے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جنگی جانوروں کے ایسے ہی حملے کے بعد درجنوں ادھ کھائی لاشیں قبروں کے باہر پائی گئی تھیں۔ یہ منظر دیکھنے والے افراد نے سرکاری حکام اور پولیس سے رابطہ کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ حکومتی اداروں نے صورتحال کی سائنسی توجیہہ کیلئےماہرین کا پینل ترتیب دیا اور سفارشات مانگیں تو ان کو کہا گیا کہ چونکہ شدید سردی کے سبب یہاں دفنائی جانے والی لاشیں گلتی سڑتی نہیں اس لئے جانوروں نے دھاوا بول کر لاشیں کھال لیں۔ مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ پچھلے کئی ادوار میں بھی جنگلی جانوروں نے مدفون لاشون کا یہی حشر کیا تھا۔ چنانچہ مقامی حکام نے ابتدائی مرحلے میں یہاں لاشیں دفنانے پر پابندی عائد کی اور اب مرنے پر پابندی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اگر وہ مرنے اور تدفین پر پابندی عائد نہ کریں تو لاشوں سے نکلنے والے نامیاتی اجاز سے قصبے میں مہلک وائرس اور جراثیموں کی بھرمار ہو جائے گی کیونکہ ماہرین کے تجزئیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک صدی پرانی لاشوں سے اسپیشن وائرس یا اسپیشنش فلو کے اثرات، بخارات کی شکل میں قصبے میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سےقصبے کی ڈھائی ہزار کی آبادی کا سروے مسلسل کیا جاتا ہے اور بیمار و قریب المرگ افراد کو قصبے میں رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جو بیماری لوگ اصرار کر کے یہاں رہائش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو ایک حلف نامہ بھرنا پڑتا ہے کہ موت کی صورت میں ان کے لواحقین میت کو کسی اور شہر میں دفنائیں گے۔
Load/Hide Comments