عاصمہ جہانگیرپاکستانی تاریخ میں زندہ دلی کی مثال ہیں۔کچھ دوست سماجی کارکن اور قانون دان عاصمہ جہانگیر (مرحومہ) کو جہنم واصل کرنے پر تلے ہوئے ہیں،کوئی قادیانی کا ٹھپہ لگا رہا ہے تو کوئی بھارتیہ ایجنٹ کا،مگر کوئی ان سے پوچھے بھائی یہ اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟ یہ کائنات و انسان اللہ بزرگ و برتر نے پیدا کیے یہ فیصلہ بھی اسی کو کرنے دیجئیے کہ کون کہاں جائے گا۔ ہم اپنی جنت کا اہتمام کر لیں تو بڑی بات ہے کیونکہ ہم اللہ کے حضور اپنے اعمال کے جواب دے ہوں گے نہ کہ دوسروں کے۔ہاں مگر ہمارے خود ساختہ فتوؤے ہمارے اعمال نامے کا حصہ ضرور بنیں گے۔اس وقت یہ دلیل کام نہیں آئی گی کہ فلاں مفتی نے عاصمہ جہانگیر کے متعلق یہ فتوی دیا یا فلاں کتاب میں ایسا پڑھ کر ذہن بنا۰ اللہ بخشے مرحوم جنرل ضیاءالحق کو جن کی شدت پسندی کی بوئی فصل ہم کاٹنے پر مجبور ہیں ورنہ اس سے پہلے بھی ایک پاکستان موجود تھا جہاں نہ تو کسی کو کافر قرار دیا جاتا تھا اور نہ ہی منکر اسلام کا زبردستی ٹھپہ لگا کر جان لی جاتی تھی۔ عاصمہ جہانگیر کا قصور یہ تھا کہ بلا مشروط ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ان کا کسی سیاسی یا مذہبی گروہ سے تعلق نہ تھا کبھی کسی ایشو پر پیپلز پارٹی کے ساتھ توکبھی مسلم لیگ نواز کے ساتھ کھڑی احتجاج کرتی نظر آتی، جب مذہبی جماعتیں فنڈز کی منتظر ہوتیں عاصمہ جہانگیر تن تنہا احتجاج کرتی نظر آتیں، کشمیری نوجوان برھان وانی کا قتل ہو یا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا کا معاملہ قانون دان اور سماجی کارکن عاصمہ جہانگیر اگلے مورچے پر کھڑی نظر آئی ہیں لاپتہ افراد کا معاملہ تب بریکنگ نیوز بنا جب عاصمہ جہانگیر نےاس ایشو پر بات کی۰عاصمہ جہانگیر مردہ سماج کہ اندر زندہ دلی کی خود ہی مثال تھیں۔ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کیس کہ بعد مظبوط سے مضبوط پاؤں ڈگمگا رہے تھے مگر اسامہ بن لادن کہ بچوں کا کیس بھی یہی خاتوں لڑتی نظر آئیں۔ عاصمہ جہانگیر اکثر کہا کرتی کہ اگر میری آواز دبانا چاہتے ہو تو آئین پاکستان کی شق نمبر نو ہٹا دو جہاں مجھے آزادی رائے کا حق دیا گیا ہے ۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments