سابق ایم این اے حنیف عباسی کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر فیصلہ
عمران خان نااہلی سے بچ گئے. سپریم کورٹ نے انھیں کلین چیٹ دے دی. مزید تفصیلات کئچھ دیر میں
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 14 نومبر کو پی ٹی آئی رہنماؤں کی نااہلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف پاکستان مسلم لیگ ن کی اپیل خارج کر دی جبکہ جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ عدالت نے غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات بھی مسترد کر دیئے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلہ پڑھ کر سنایا
فیصلے میں کہا گیا کہ آنے میں تاخیر ہوگئی، اس پر معذرت چاہتا ہوں، ایک صفحے پر غلطی تھی جس کی وجہ سے 250 صفحے دوبارہ پڑھنے پڑے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان پر نیازی سروسز ظاہر کرنا لازم نہیں تھا، عمران خان نے بنی گالہ اراضی فیملی کیلئے خریدی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کی نا اہلی درخواست میرٹ پرخارج کی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جہانگیر ترین نے اعتراف جرم کیا اور جرمانہ ادا کیا، سوال یہ ہے کہ کیا اعتراف جرم پر نا اہلی ہوتی ہے۔
چوہدی سرور، فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما عدالت میں موجود ہیں جبکہ ن لیگ کی جانب سے حنیف عباسی، طلال چوہدری، دانیال عزیز بھی کورٹ روم نمبر ایک میں موجود ہیں۔ عدالت کے باہر لیگی رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔
خیال رہے عمران خان کے خلاف نا اہلی کیس کی ہنگامہ خیز سماعت ایک سال تک جاری رہی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کے کپتان پر آف شور کمپنی چھپانے، تحریک انصاف کے لئے غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ جمع کرنے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کرنے، بنی گالہ اراضی اہلیہ کے نام بے نامی خریدنے، ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے غیرقانونی فائدہ اٹھانے کے الزامات سامنے آئے۔
پانامہ پیپرز لیکس پر عمران خان نے شریف فیملی کےاحتساب کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ن لیگ کے رہنما نے کپتان کو بھی اسی عدالت کے کٹہرے میں کھینچ لیا۔ حنیف عباسی نے دو نومبر 2016 کو عمران خان کی آرٹیکل باسٹھ ون ایف پر نا اہلی کیلئے درخواست دائر کی۔ سپریم کورٹ نے 7 نومبر کو پہلی سماعت پرعمران خان سے جواب طلب کیا۔ کپتان نے 23 نومبر کو پیش تحریری جواب میں بنی گالہ اراضی خود خریدنے کا مؤقف اپنایا۔ 23 نومبر 2016 کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے باعث بنچ ٹوٹ گیا اور کیس پانچ ماہ تک زیرالتوا رہا۔
نئے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تین مئی 2017 سے مقدمے کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔ 18 مئی کو عمران خان نے دوسرا بیان حلفی جمع کرایا جس میں جمائما سے قرضہ لینے کا بتایا اور اپنے نمائندہ راشد خان کا بیان بھی پیش کیا۔ ن لیگ نے راشد خان کے بیان کو عمران خان کا قطری خط قراردیا۔ عدالت نے لندن فلیٹ خریداری کی منی ٹریل پر سوالات کئے تو عمران خان نے 22 جولائی کو منی ٹریل کے نامکمل ہونے کا اعتراف کر لیا۔ چیف جسٹس نے ممنوعہ فنڈنگ کے معاملہ پر ریمارکس دیئے کہ دوسروں کی دیانت داری پر بات کرنے والے کے احتساب میں کوئی حرج نہیں۔
عمران خان کے وکیل نے دوران سماعت واشگاف الفاظ میں کہا کہ 2003 میں لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد آف شور کمپنی کی کوئی قانونی حیثت نہیں تھی۔ عدالت نے جمائما خان کو قرض کی واپسی کا ریکارڈ طلب کیا تو انکشاف ہوا کہ لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد بھی کمپنی اکاؤنٹ میں لاکھوں پاؤنڈ اور یورو کی ٹرانزیکشن ہوتی رہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کمپنی کی قانونی حیثت نہیں تھی تو اتنی بڑی رقمیں کیسے آتی جاتی رہیں۔ وکیل حنیف عباسی نے نشاندہی کی کہ عمران خان نے بنی گالہ اراضی کی خریداری پر مؤقف 3 بار بدلا، انہیں پاناما فیصلے میں طے معیار کی رو سے، جھوٹ بولنے اور کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پر نا اہل قرار دیا جائے۔
وکیل عمران خان نے اختتامی دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل سے گوشواروں میں غلطی ہو سکتی ہےغلط بیانی نہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کیا پانامہ کیس میں تنخواہ کا نہ بتانا غلطی تھی یا غلط بیانی؟۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 14 نومبر کو آخری سماعت میں کہا عدالت کو سچ کی تلاش ہے، دستیاب مواد سے فیصلہ کریں گے کہ عمران خان یا حنیف عباسی میں سے کس نے سچ بولا