جرمنی کے وزیر خارجہ نے زیگمار گابرئیل کا دارالحکومت برلن میں خارجہ پالیسی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ کو اپنے مفادات اور اقدار کے تحفظ کے لیے زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اگر ضروری ہو تو امریکا کے خلاف بھی کھڑا ہونے سے گریز نہ کیا جائے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ’’امریکا کا عالمی سطح پر غلبہ آہستہ آہستہ تاریخ کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر پیدا ہونے والے خلا کو پُر نہ کرنا انتہائی حد تک خطرناک ثابت ہو سکتا ہے.
زیگمار نے واضح کیا کہ امریکا اب بھی یورپ کا قریبی اتحادی رہے گا لیکن واشنگٹن کے ساتھ اختلافات پر بات کی جانی انتہائی ضروری ہو چکی ہے اور ہم امریکہ کو سرخ لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں دی سکتے جس کہ یورپ کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے. جرمنی کے وزیر خارجہ نے خاص طور پر روس کے خلاف امریکی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں توانائی کی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے جو کہ براہ راست یورپ کی معیشت کو پس پشت ڈالنے کی ایک سازش ہے.
اسی طرح انہوں نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ معاہدہ ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ جرمن وزیر خارجہ نے امریکا کو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے نئی پالیسی پر بھی تنقیدکا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر امریکا نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا تو اس اقدام سے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا تنازعہ سر اٹھا لے گا جو کہ پورے خطے کے امن کو سوالیہ نشان بنا دے گا.
امریکہ اور جرمنی کے درمیان اختلافات میں شدت اس وقت آئی جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بننے . ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی جرمنی کے امریکا کے ساتھ ٹریڈ سرپلس پر تنقید کی تھی اور برلن حکومت کو نیٹو اتحاد کے لیے اضافی رقم ادا کرنے کابھی مطالبہ سامنے رکھ دیا۔ اس واقعے کے فورا بعد واشنگٹن اور برلن حکومت کے درمیان اس وقت بھی اختلافات دیکھنے میں آئے تھے، جب امریکا نے پیرس عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکل جانے کا اعلان کیا تھا جو کہ پیرس اور پوری عالمی دنیا کے لیے بھی کسی حیرت سے کم نہ تھا.
Germany Foreign Policy
Europe Reaction on Donald Trump
Germany Reaction on Donald Trump Policies
Climate Change Policy and Donald
Paris Agreement and USA Exit Plan