جگر ہو ٹھیک تو بندہ کمرسے جاتا ہے

پانچواں سال آ لگا ہے ۔ گِر جاتے تو شاید باقی گِرنے والوں کی طرح اُٹھتے ، اُٹھ کر ایک نظر دائیں بائیں دیکھتے اور یہ جا وہ جا ۔ لیکن گِرنا تو جیسے اِس خاکی پُتلے کے تکبر کی موت ہو ۔جی ہاں وہ دسمبر کی ہی ایک بھیگی صبح تھی ۔جب عِشقِ بُتاں کے مارے شب بھر ٹھنڈی ٹھار شاعری سے دسمبر کو سنگ دِل اور ظالم ثابت کر کے گرم لحافوں میں لمبی تانے سو رہے تھے اور ہم ٹھیک پونے آٹھ بجے اسکول پہنچنے کی دوڑ میں اپنے رُوٹ پر رواں دواں تھے ۔ہلکی ہلکی بُوندا باندی نے ماحول کو ہلکورے لیتی غزل کا رُوپ دے رکھا تھا ۔ شاہراہ فیصل خلاف معمول کھردری سڑک کی بجائے چمکتے دمکتے آئینے کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ ماحول کے رُومانوی رنگ سے لُطف اُٹھانے میں واحد رکاوٹ احتیاط سے بائیک کی ڈرائیونگ تھی اور ہم اِس حوالے سے کُچھ زیادہ ہی پُراعتماد تھے ۔ اپنا ہی ایک اکلوتا رومانوی شعر !!
دِل ہنستا ہے یا روتا ہے اِس بارش میں
چل دیکھیں تو کیا ہوتا ہے اِس بارش میں
گُنگناتے اور موج میں لہراتے مستاتے جب نیشنل اسٹیڈیم کا پُل اُتر کر مشرق سینٹر کی بغل میں اُترے تو ایک عجیب منظر منتظر تھا ۔
وہ نوجوان شاید کُچھ زیادہ ہی جلدی میں تھا یا شاید اُس کے کے کانوں میں لگی ٹُوٹیوں پر کوئی راک ٹائپ گانا چل رہا تھا جس نے اُسے تمام خطروں سے بے نیاز کر دیا تھا ۔ جب اُس پر ہماری پہلی نظر پڑی، وہ اُس وقت شیشیے کی طرح چمکتی دمکتی سڑک پر ایک لمبی سلائیڈ لے رہا تھا ۔ وہ منظر کسی طور بھی لُطف انگیز نہ تھا ۔
یہ چند سیکنڈ کی کہانی ہے جو ہم کسی خواب کی طرح بہت طوالت سے بیان کر رہے ہیں ۔ ابھی اُس کی حالت پر افسوس سے ہی فراغت نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور صاحب شاید ڈر کے مارے عجلت میں بریک لگانے کے سبب اُس سے چند فُٹ کے فاصلے پر زمیں رسید ہو چُکے تھے اور پھر یہ سلسلہ کسی ایٹمی ری ایکشن کی طرح ایک زنجیر بناتا چلا گیا ۔ محتاط اندازے کے مطابق وہ آٹھ دس یا بارہ بائیک سوار تھے ۔ جن میں بارہویں ہم تھے ایک معمولی فرق کے ساتھ ۔
جب ہمارے سامنے والے صاحب زمیں بوس ہوئے تو ہم نے بھی ہلکی سی بریک لگائی اور ایک لمحے میں اپنے انجام سے باخبر ہو گئے ۔ بریک لگاتے ہی ہماری بائیک کا رُخ حسن اسکوئر سے مُڑ کر مشرق سینٹر کی طرف ہو گیا ۔ یہ شاید نوے کا زاویہ بنتا ہے ۔اُصولاً اب ہمیں گِر جانا چاہیے تھا لیکن بچپن سے مردانگی کے فضول اسباق اور زندگی میں بے پناہ کھیل کُود کی وجہ سے نصیب ہونے والے مسلز نے بغاوت کرتے ہوئے گِرنے سے صاف اِنکار کر دیا ۔ چار و ناچار دایاں پاؤں زمین پر جماتے ہوئے ہم نے اپنے پُورے جسم کا وزن بائیک کا وزن اور بائیک کی رفتار جو بائیک کے رُکنے سے ہمارے جسم میں مُنتقل ہوئی وہ بھی سہارتے ہوئے ایک دو بار دائیں پاؤں پر اُچھلتے ہوئے کھڑے ہو گئے ۔ یہ تمام وزن اور رفتار کا زور بظاہر پاؤں پر آیا تھا لیکن درحقیقت سزا ریڑھ کی ہڈی کو مِلی تھی ،کیونکہ وہ شاید چار یا پانچ سیکنڈ ہی تھے کہ ہم پُورے غرور کے ساتھ گِرتے پڑتے لوگوں کے درمیان کھڑے تھے ۔ اگلے ہی لمحے بائیک ہماری گرفت سے آزاد ہو چُکی تھی ۔اور ہماری ریڑھ کی ہڈی ہمارے دھڑ کا بوجھ مزید سہارنے سے مُکر گئی ۔ بیچ سڑک پہ لیٹے لیٹے ہم نے دیکھا تو انتہائی عاجزی کے ساتھ گِرنے والے تمام سوار لمحے بھر کی شرمندگی کو جھاڑ کر اپنی اپنی منزلوں کے لیے رخت سفر باندھ چُکے تھے ۔ہماری بائیک کوئی اللہ کا بندہ گھسیٹ کر سائیڈ پر لگا رہا تھا ۔ ہم نے اُٹھنے کے لیے دونوں ہاتھ سڑک پر جماتے ہوئے ایک ہی جمپ کے ساتھ اُٹھنے کی کوشش کی تو پتا چلا اُچھل کُود اب صرف خیالوں میں ہی مُمکن ہے ۔ دائیں کروٹ گھوم کر کسی طور بیٹھے ہی تھے کہ دو اللہ والوں نے ہمیں بغلوں سے تھام کر قریب موجود فُٹ پاتھ پر لے جا دھرا ۔
ہمارا تجربہ ہے کہ کراچی والے اس معاملے میں اللہ کے ولی ثابت ہوئے ہیں ۔ایسے کسی بھی حادثے میں کسی مضروب کی ممکن امداد کے لیے وہ اپنی فلائٹ بھی چھوڑ سکتے ہیں۔بہت مُشکل سے اُن رحمت کے فرشتوں کو سمجھایا کہ سب ٹھیک ہے ۔ لیکن سب ٹھیک کہاں تھا ۔
دَم گُھٹ رہا تھا اور کمر سے نچلا دھڑ سُن ہو چُکا تھا ۔ کسی طور ہم نے بائیک کو وہیں لاک کیا اور مشرق سینٹر کے پہلو میں ڈی سی آفس کے ایک ویران گوشے میں جا کر لیٹ گئے ۔اسی اثنا میں یاد آیا کہ ہمارا ایک جگری دوست ہے کہ جس کے ساتھ ہمارے شب و روز گزرتے ہیں ۔ اور اُس نے حال ہی میں نئی نویلی وٹز بھی خریدی ہے ۔ سونے پر سہاگہ ہمارے اور اُس کے درمیان تکلف کا کوئی رشتہ بھی نہ تھا ۔سو عجیب غرور کے ساتھ ہم نے فوراً اُس کا نمبر ڈائل کیا ۔ اُس نے پُوری تسلی کے ساتھ ہماری دُکھ بھری داستان سُنی ۔ ہمارے کان منتظر تھے کہ ابھی آواز آئے گی “” یار ٹینشن نہیں لے میں بس ابھی پہنچا “” لیکن دوسری طرف سے جس جوابی جملے نے ہماری سماعت پر دستک دی اُس سے پہلے ایک مسرت بھرا قہقہہ بھی تھا ۔ قہقہے کے تھمتے ہی موصوف نے فرمایا کہ بھائی آپ نے غلط نمر ملایا ہے ۔ یہ چھیپا کی ایمبولینس سروس کا نمبر نہیں ۔چھیپا کا نمبر آپ کسی سے پُوچھ لیں یا پھر میں تھوڑی دیر میں فون کر کے دیتا ہوں آپ کو ۔ اب قہقہے کی باری ہماری تھی ۔اَنا کی جنگ بھی انسان کو زندہ درگور کر دیتی ہے ۔ ہم نے جواباً اپنے جگری یار سے بھی بلند قہقہ لگا یا گو اُس قہقہے میں روح کی بلبلاہٹ بھی شامل تھی لیکن روح کی آواز کوئی روح ہی سُن سکتی ہے گوشت پوست کا پلا پلایا جسم نہیں ۔ “” ابے مذاق کر رہا ہوں ۔ پُوچھنا تھا وہ پِکنک کا کیا ہوا !! ؟؟چل شام خان کے ہوٹل پر مِلتے ہیں وہیں طے کر لیں گے ۔ اللہ حافظ”” ۔
شاید تین گھنٹے ڈی سی آفس کے فٹ پاتھ پر پڑے پڑے گزر چکے تھے۔ نوٹری پبلک والوں کی اپنے اپنے ڈربوں میں آمد شروع ہو چکی تھی ۔ ایک دو کے استفسار پر بات گول مول کر کے وہاں سے بھی فرار کی ٹھانی !!
کبھی رہنے نہیں دیتا سوالی غیر کے آگے
مجھے چلنا سکھانے کو سہارے چھین لیتا ہے
کے مصداق ہی اللہ نے ہمیں ہماری ہی بائیک پر ہمارے ہی ہاتھوں ہمیں وہاں سے گھر پہنچایا ۔ بائیں ٹانگ مکمل سُن تھی ایسی سُن کہ شاید چاقو سے کاٹ بھی دیتے تو خبر نہ ہوتی ۔ ایکسرے میں پتا چلا بہت زیادہ دباؤ برداشت کرنے کی وجہ سے دو مہروں کے درمیان موجود خلا تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اُن کے درمیان اعصاب پچکے پڑے ہیں جس کی وجہ سے نچلے دھڑ کے ساتھ حرام مغز کا مواصلاتی رابطہ متاثر ہو چُکا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے مٹھی بھر گولیاں اور کتاب بھر احتیاطی تدابیر کے ساتھ گھر رُخصت کر دیا ۔
یہ جسم بھی تو نہیں چلتا ساتھ غُربت میں
جگر ہو ٹھیک تو بندہ کمر سے جاتا ہے
شروع کے دو ماہ میں اُمید ہے کہ گزشتہ عمر کے حقوق اللہ کی تلافی ہو گئی ہو گی کہ کسی رُخ اور کوئی پل چین نہ تھا ۔ پھر دھیرے دھیرے ہم نے درد کو بھی عادت بنا لیا ۔ اس دوران دسیوں ڈاکٹر اور درجنوں ٹوٹکے آزما چُکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے ۔یہاں مشتاق یُوسفی صاحب کی ایک بات کا مفہوم نہ لکھنا زیادتی ہو گا کہ ہمارے ہاں مہذب ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ جب آپ کسی کو اپنی کوئی بیماری بتائیں اور جواباً وہ آپ کو کوئی ٹوٹکا یا کسی جادو صفت ہستی کا پتا نہ بتائے تو وہ انتہائی مہذب انسان ہو گا ۔اس لیے ہم بھی کم ہی کسی سے تذکرہ کرتے ہیں ورنہ مکرر در مکرر استفسار کہ استعمال کیا ؟ وہاں گئے تھے ؟ کے جواب میں شرمندگی کا اضافی بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے اور اپنی تو کمر ویسے ہی دُہری ہو چکی ہے ۔
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ بعض اوقات اور بعض مواقع پر گِرجانا بھی انسان کے حق میں نعمت ہوتی ہے بشرطیکہ زمین پر گِرے کسی کی نظروں میں نہ گِرے ۔
مزید یہ کہ آسرا بس رب کا ہی قابلِ بھروسہ ہے ۔
درد شناسی کے لیے زندگی میں تھوڑے بہت درد کا مالک ہونا بھی لازم ہے ۔
جو پاس نہیں ہے ضروری نہیں کہ کبھی نہیں مِلے گا اور جو ہے کیا خبر کب تک ہے ۔
اور کسی کی بہت ہی پیاری بات کہ وقت کی خوبصورتی یہی ہے کہ اچھا ہو یا بُرا ، گُزر جاتا ہے ۔
لیکن خُدارا !! درد کے اِتنےفضائل سُن کر کسی رومانوی صبح میں شیشیے جیسی چمکتی سڑک پر جان بُوجھ کر پھسلنے کی کوشش مت کیجیے گا اور اللہ نہ کرے کبھی کہیں حادثاتی طور پر گرنا پڑ جائے تو پُورے خشوع و خضوع اور وسعتِ قلب کے ساتھ گِرنے میں کوئی قباحت نہیں اور ہاں پہلا فون چھیپا یا پھر ایدھی کو ہی مناسب رہتا ہے ۔میرا ایمان اس بات پر مزید مضبوط ہو چکا ہے کہ دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
نشرِ مکرر

Author: News Editor

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.