نائیلا علی خان
جیسے کہ میں نے اِس کتاب کے دیباچہ باب میں کہا ہے ،جموں کشمیر کے کشمیری مسلمانوں ، کشمیری پنڈتوں ، ڈوگروں اور لداخیوں نے قومیت کے معاملے میں ایک ایسے مرکزی نظریئے کو تقویت دینے کی باربار کوششیں کی۔ جو مختلف ثقافتوں کا نچوڑ ہوسکتا تھا اور جسکا اِسی بنیاد پر نام دیا جاتا۔ شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس نے اِسی خیال سے’’کشمیریت‘‘ لفظ کا احیاء کیا، جو ثقافتوں کی کئی ایک ندیوں کا شناختی دریا سمجھا جانے لگا۔اِس کی بنیاد ماضی سے جڑی تھی اور کشمیری ہندوں اور مسلمانوں کی علٰحیدہ علٰحیدہ تہذیبوں سے منتخب اُن حصوں کا نچوڑ تھا، جو دونوں فرقوں کی رسموں رواجوں کو بیان کرتا تھا۔ مِردوُرائے(284-85:2004) کے مطابق ’’یہ سیکولر نظریئے کی تائید تھی اور سیکولرازم پر لکھی گئی تاریخ کا عملی پہلو تھا۔ اِس شناخت کو اپنانے کا ایک اور مقصد دہلی کی براہ راست مداخلت کو روکنا تھا، کیونکہ دہلی حکومت نے 1950 کے اوایل سے ہی کشمیری اندرونی خودمختاری کو مسمار کرنے کی ابتداء کی تھی‘‘۔ اِسی لئے لوگوں کی نفسیات پر علاقائی جذبات کے گہرے نقوش کُند ہونے کے باوجود بھی’’کشمیریت‘‘ شناخت ابھی تک بھی جڑنہیں پکڑ سکی ہے۔
میرے نانا شیخ محمد عبداللہ کی ایجاد’’کشمیریت‘‘ تصور کا حصول میری نظروں میں ناممکن نہیں ہے اور نہ ہی یہ تصور میرے لئے خیالی ہے۔ اِس کے برعکس میں اِس تصور کو جاگیردارانہ نظام اور اِس کے ضررسان بقعیہ جات کو پاش پاش کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہوں۔ شیخ صاحب نے شناخت کے اِسی جذبے کو لیکر زمین کاشتکار کے نام نتقل کرنے کیلئے کام کیا تھا۔ وہ کشمیری عوام کا اعتماد حاصل کئے بغیر کسی بھی سیاسی نظریئے کو منظور کرنے کے مخالف تھے۔ شیخ محمد عبداللہ تعلیم، بیروکریسی اور حکومت سازی میں کشمیریوں کے حقوق کو منوانے کیلئے کام کررہے تھے، جموں، کشمیر اور لداخ خطوں میں تعلیمی اور طبی سہولیات کو عام کرنا چاہتے تھے اور تینوں خطوں کے ادب، مذہبی مقامات اور تاریخی وراثت کو محفوظ بناکر’’کشمیریت‘‘ کے خواب کی تعبیر تلاش کررہے تھے۔ انہوں نے جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لاکر 1951 میں ریاست کیلئے آئین نافذ کردیا۔ یہ اقدام جمہوریت کو استحکام بخشنے کی راہ پر آگے کی طرف بہت لمبی چھلانگ تھی، خواتین، مرد دونوں جنسوں کیلئے یونیورسٹیے سطح تک مفت تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقعہ پانے اور سماجی، سیاسی اور اعلیٰ نظریاتی اداروں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے بنیادی حقوق کا آئینہ دار تھا اور مختلف النظریات کا مرکز اور قابل فخر تہذیبی شناخت کا وعدہ تھا۔
’’کشمیریت‘‘ کا یہ تصور یا کشمیر کو متحد کرنے کا یہ خواب، جیسا کہ میں نے پہلے ہی بیان کیا ہے، شیخ محمد عبداللہ کی جماعت جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے سیکولر کردار کی مضبوط بُنیاد تھی۔ جس کو 1940 اور 1950 کی دہائیوں کے دوران مرکزیت سے متعلق آزاد ہندوستان کی حکومتوں کی حکمت عملی کو ناکام بنانیکی خاطر عوام میں متعارف کیا جارہا تھا۔ (رائے:2004 )۔اِس اہم تخیل سے مذہبی، سماجی اور ثقافتی رنگ ڈھنگ اور ابہام میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کا کوئی منشا نہیں تھا۔ نہ ہی یہ کوئی مخصوص شناخت کو تھوپنے یا پھرکسی ثقافت کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش تھی۔ میں اِس سیکولر نظریئے کو یکطرفہ طور مسترد کرنے کی مخصوص کوششوں کا رخ تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔ کشمیریت اصل میں ہندوستانی سٹیٹ کے پہلے سے ہی طے شدہ نظریئے کا حلیہ تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اور اِس کی بدولت ہندوستان اور پاکستان کیلئے ایک متبادل نظریہ اپنانے کیلئے موافق حالات فراہم ہوسکتے ہیں۔ ریاست جموں کشمیر میں سیاسی وسماجی انقلاب کے دوران اِس نظریئے کے سامنے آجانے سے دیگر کئی متبادل آراء پیش کرنے کا بھی موقعہ فراہم ہوا۔ اِس نظریئے کی تاریخی اہمیت سے انکار کئے بغیر شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس نے خودمختار کشمیری تشخص قایم کرنے کی غرض سے ہی کشمیریت کو ایک اہم حکمت عملی کے طور پر سامنے لایا تھا۔ کشمیریت کے نظریئے کو ہر عیب سے پاک نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ مِردورائے (ایفاً296) نے بھی واضح کیا ہے کہ۔۔۔ثقافتی ہم آہنگی سے متعلق اِس نظریئے کی کشمیری ہندوں کو حاصل مراعات کا تحفظ کرنے کی شرط پر پیش گوئی کی گئی تھی اور اکثریتی فرقے کیلئے یہ شرط تسلیم کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا۔
سابق راجواڑہ ریاست میں غیر یقینیت 1947 سے برابر چھائی رہی ہے۔ غیر واضح ماحول، سیاسی شعبدہ بازی کے کالے بادل اور سیاسی فریب کاری کا وہم اور جمہور کش طور طریقوں کی بھرمار میں کوئی تفاوت نظر نہیں آتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ لٹکائے رہنے کے نتیجے میں برصغیر ہند کی سلامتی بہت بڑے خطرات سے دوچار ہے۔ کیا جموں کشمیر کی سابق راجواڑہ ریاست اب استعماری راج کی نشانی بن گئی ہے؟ استعماری نظام (نوآبادیاتی) یورپی سلطنتوں کے زوال کے بعد کا وہ دور ہے، جب بیسویں صدی کے وسط میں، ایشیا، افریقہ اور کیربین ممالک کے لوگ نئی حکومتیں تشکیل دینے اور قومی شناخت قایم کرنے کیلئے سرگردان تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں لائین آف کنٹرول (ایل اوسی) کے آرپار ایسے نظریات پر کاربند ہیں، جن کی بنیادیں دونوں ممالک کے سرکاری اداروں اور ایجنسیوں کے بنائے قاعدے قانونوں پر رکھی گئی ہیں۔ اِن اداروں کی حکمت عملی تنگ وبے بنیاد نظریات پر مرکوز ہے ، جو ثقافت اور مذہب کا استحصال کرنے تک ہی محدود ہیں اور کشمیری عوام کی موضوعی حثیت، تاریخی مفاہمتی کردار اور رسم وراج کے طور طریقوں کی اہمیت کو گھٹانے کیلئے بروئے کار لائی گئی ہے۔ جیسے کہ فلسطینی معاملات کے ممتاز امریکی سکالر ایڈوارڈ سعید(29:1991) نے کہا ہے کہ تمام ترانسانی سرگرمی کا منشا غیر حقیقت پسندانہ خواہشات کو قابو کرنا ہوتا ہے۔ لفظوں کی زبان میں اِس کو رسم ورواج یا مرضی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے‘‘۔ مراعاتی مراکز کے اقتدار پرست نمایندے سماج اور سیاست کی دہلیز پر کھڑے ہم نشین لوگوں کی آواز کو دبانے کیلئے کوشان رہتے ہیں۔ اقتدار پرست یہ عناصر حقیقت کو چھپانے کیلئے اپنی ذاتی نظریات کو عام لوگوں پر ٹھونس دیتے ہیں، تاکہ اُن کا اپنا سکہ چلایا جاسکے۔ ایسے عناصر شعبدہ بازی کے کھیل کھیلنے اور خود اپنے اعتقاد کی حدود کو وسعت دینے کے نتیجے میں اپنے آقاؤں کی آنکھوں کے تارے بن جاتے ہیں۔ ان نظریات کو کشمیر میں لوگوں پر ٹھونسے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے، تاکہ کشمیری عوام کی سوچ پر اثرانداز ہوکر انہیں اپنے پیروکاروں کی حثیت میں پیش کیا جاسکے۔
برطانوی راج کے شاہی ایجنٹ وجموں کشمیر راجواڑہ کے سیٹلمنٹ کمشنر سروالٹرلارنس نے اپنی تصنیف ’’دی ویل آف کشمیر(1895،2005) میں کشمیری عوام کی اِس حالت زار کا قبل از وقت نقشہ کھینچا تھا۔ کشمیریوں کی سیاسی اور ثقافتی تذلیل کی اِس تصویر کو سامنے رکھ کر ہی ہندوستان او رپاکستان کی حکومتوں نے جموں کشمیر کے بارے میں اپنی پالیسیاں مرتب کرلیں ہیں اور اِسی وجہ سے اِس خطہ میں جمہوری طور قایم حکومتوں کے اختیارات کو مختصر کردیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنی پالیسیوں کو آمریت کی بنیاد پر مرتب کرکے کشمیر کی تباہی کیلئے راستے ہموار کردیئے ہیں۔ کشمیر مسئلے کو حل کرنے میں غیر ضروری اور غیر مناسب طوالت کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نازک تعلقات کو اور بھی زیادہ نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ اِس مسئلے کو بہتر یا ابتر صورت میں عالمی سیاست پر بھی اثر انداز ہونے دیا گیا ہے۔ اور تیزی سے رنگ بدلتے حالات کے پیش نظر برصغیر ہند میں عدم استحکام کو تقویت مل گئی ہے۔ جوزف کوربیل(304:2002) نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مستقبل کیسا بھی ہو، آزاددُ نیا جمہوریت کی فلاح کیلئے
ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ مشترکہ طور ذمہ دار ہے اور کشمیر مسئلے کے حل کیلئے بے چینی کے ساتھ منتظر ہے۔ دنیا کی سلامتی کا دارومدار اِسی مسئلے کے ساتھ وابستہ ہوسکتا ہے۔
(نوٹ: ذیل مضمون شیخ محمد عبدللہ کی نواسی نائیلا علی خان جو امریکہ میں مقیم ہیں ، کی انگریزی تصنیف ’’اسلام ، وومن وائلنس ان کشمیر بٹوین انڈیا اینڈ پاکستان ‘‘ کے اردو ترجمہ سے مقتبس ہے۔)