نائیلا علی خان
کشمیر کی ملی جلی تہذیب کی درخشاں علامت للہ دید کا وجود ہے جس کو کشمیر کے ہندو اور مسلمان یکسان طور پر یاد کرتے ہیں۔ للہ دید کو کشمیر میں روحانیت اور ثقافت کے میدان مین اہم تعمیر ی رول ادا کرنے کا شرف حاصل ہے ۔ بزاز کی نظر میں دور ماضی کی خواتین کا کشمیر کی ثقافت میں شاندار رول رہا ہے جو قابل ستائش بھی ہے تاہم اس رول کو رومانی لباس میں پیش کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں اور سماج میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے سے متعلق دانشور خواتین کی جودجہد کی اہمیت کو گھٹا یا جاتا رہا ہے۔
یوں تو ایک بے اولاد صوفی عارفہ نے عورت کی دیوی یا ممتا صفت، جو اس کو روایتی سماجوں کو جوڑے رکھنے میں اطاعت شعار کی حیثیت دیتا ہے، کو ڈھانا ممکن بنا دیا ۔ لیکن اکثر مورخین کی یہی رائے ہے کہ وادی کشمیر میں نمایاں ترین صوفی فرقہ کے ریشی مسلک کے بانی اول شیخ نور الدین ولیٰ نے للہ دید کو اپنا روحانی پیشوا قرار دیا تھا۔ ایک عام روایت یہ ہے کہ نورالدین نام کے بچے نے اپنی ماں صدرہ کا دودھ نہ پینے کی ضد پکڑی ۔ اس بچے کو للہ دید کے پاس لیجایا گیا ، جس نے دودھ نہ پینے کی ضد کرنے کے لئے بچے کی سرزنش کی۔ اس کے ساتھ ہی اس بچے نے ماں کا دودھ پینا شروع کیا۔ اس کے بعد للہ دید نے شیخ نورالدین ؒ کو اپنے فلسفہ دین انسانی میں غوطہ زن ہونے کی دعوت دی۔للہ دید اور شیخ نورالدین ولیؒ کی تحریر ہوئی نظموں اور تعریفی کلمات نے کشمیر لٹریچر کو مالا مال کر دیا ہے اور ثقافت کو وسعت دی ہے۔ کشمیری زبان میں فن شاعری اور لٹریچر پر ہوئی جامع تحقیق کے بعد سرجارج گرئیرسن (۱۹۱۳) اس نتیجے پر پہنچا کہ للہ دید کشمیر کی سب سے قدیم مصنفہ ہیں۔ اس کے اشعار کو عارفانہ دور کے صدیوں بعد بھی ودی کے مختلف حصوں میں عقیدت حاصل ہے ۔ للہ واکھ یعنی اقوال ذرین ، جو فلسفانہ موضوع و مضمون کا خزانہ ہیں، لوگوں کی مادری زبان کشمیری میں نسل در نسل سفر کرتے رہے ہیں۔
للہ دید کی مذہبی فلاسفی کے یک رخی سکالر پروفیسر امرناتھ درنے ۱۸ اپریل ۲۰۰۸ کو مجھے ایک میل بھیجا ہے جس میں للہ دید کی ہمہ جہت روحانیت اوعر کشمیری سماج پر اسکے گہرے اثرات کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔ پروفیسر کے مطابق، سیاسی ، ادبی اور سماجی قلمروی کی حد بندی کرنے کے نتیجے میں للہ دید اور شیخ نورالدین ولیؒ کے فلسفہ وحدانیت کی تاثیر متاثر ہوئی نظر آتی ہے۔
نندہ زیشی المعروف شیخ نورالدین ولیؒ للہ دیدسے کافی متاثر تھے ۔ وہ ان کی خصوصی طور پر عزت کرتے تھے اور للہ دید کے ہندو اعتقد اور اوتاروں میں یقینرکھنے کے مخالف نہیں تھے۔ شیخ نورالدین ولیؒ نے وادی میں السام کی آمد کے بعد ریشی مسلک کی بنیاد ڈالی۔ شیخ نوارلادین ولیؒ کی للہ دید کے تئیں غٰر متزلذل عقیدت کی وجہ سے ہی ولیؒ کے مداح، کشمیری مسلمانوں پر بھی ان کا اثر پڑا۔ ای بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ کشمیر کے مسلمان صدیوں سے للہ دید کے ساتھ عقیدت رکھتے آئے ہیں۔ اس عارفہ کے زرین اقول کو زبان پر لاتے مسرت محسوس کرتے ہیں اور کشمیری پنڈتوں کی طرح ہی للہ دید کے اقول کا تذکرہ شادی اور ثقافتی تقریبات میں کرتے ہیں۔ صوفی بزرگوں ، خاص کر جو وادی میں باہر سے وارد ہوئے تھے اور شیخ نورالدینولیؒ کی ریشی روایات اور انسانی جذبات کے عقیدت مند تھے نے بھی کشمی کی ملی جلی تہذیب اور روایات کو زندہ رکھنے کے لیے کام کیا۔
للہ دید کا اگرچہ ایک ہندو خاندان میں جنم ہوا تھ، پر وہ صوفی اسلام سے کافی متاثر تھیں اور سچ یہی ہے کہ وہ مذہبی رسم پرستی سے بالاتر تھیں۔ کشمیری زبان اور ادب کو للہ دید کا سب سے بڑا عطیہ یہ ہے کہ انہوں نے شوا فلسفے کی نزاکت اور باطنی نظریات کے علاوہ اپنے عارفانہ تجربات کو عام فہم کشمیری زبان میں پیش کیا۔ للہ دید نے اپنے دقیق نظریات کو استعاروں ، معاوروں اور شکلوں کی مدد سے عام لوگوں تک پہنچایا اور للہ واکھ کو کشمیری زبان میں آسان طریقے سے ہر گھر تک عام کر دیا۔ انہوں نے اپنے خالق کے ساتھ نزدیکی قایم کرنے کے لئے کسی مذہب پرست مرد یعنی برہمن، پادری یا ملا کا سہارا نہیں لیا۔
لل دید دور اندیش شاعرہ تھی، اس کے پرمقصد اشعار نے اس روایتی سوچ اور سلوک کے سرکش خول کو چکنا چور کر دیا جو ذات کو بے بس بنانے کا باعث تھا۔ للہ دید نے خود ااگاہی کے تصور سے متعلق موجودہ زمانے کی لاشعوری کوششوں کو پہلے ہی مسترد کر دیا ہے۔
پھر بھی للہ دید نے ناامیدی کا رونا رویا ہے۔ دنیاوی فریب اور مسرتوں کا بوجھ اپنی کمرے سے باندھے رکھا ہے ۔ جیسے اس بوجھ کی رسی ڈھیلی ہو کر تکلیف پہنچا رہی ہے۔ للہ دید اس بوجھ کی پیداوار دکھ اور مشقت سے آشنا ہو چی ہے۔ اس دنیاوی عمل میں زندگی ضائع ہو چکی ہے اور تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔ اس وجہ اسی وجہ سے للہ دید نا امید ہے۔
وہ اپنے روحانی استاد ، اپنے گرو سے رفوع کرتی ہے۔ استاد کے سبق سے وہ از حد بے چین ہو جاتی ہے۔ جیسے کوئی عزیز ترین شے کھو جانے کا فططری عمل ہوتا ہے اور خیال آتا ہے کہ دنیاوی فریب سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے۔ للہ دید سیکھ جاتی ہے کہ اس کے وجود کو حس دینے والے تمام عناصر یعنی ذہن کہیں کھو گیا ہے اور وہ جہالت میں شرابور ہو چکی ہے (ایضا)اس کے از قدرت علم اور سماج کی طرف سے ابھاری گئی ضرورتوں کو سمجھنے کے لئے عرق ریزی کرنے کے وصف نے للہ دید کو سکھایا تھا کہ وہ مخالف سمت سے ہوائیں چلنے پر اور بے جا تنقید کا شکار ہو جانے پر اپنے من کو صاف رکھے۔ للہ دید کی نزاکت سے پردانشمندانہ باتیں ، جو انہوں نے خاص طور پر عورت کی حیثیت میں سماجی، مذہبی اور ثقافتی معاملات کے بارے میں کہی تھیں، ہدف تنقید بنائی گئیں۔ یہ تنقید مہلک تھی اور دھمکانے کا ہتھیار بھی۔ پھر بھی وقت کی غار ت گری اور اکیسویں صدی میں عورت کی آزادی سے متعلق کہاوتوں سے للہ دید کی اثر آفرین بنیاد، شاعری کی قطعی خوبصورتی اور آج کے دور میں اس شاعری کے اثرات کی اہمیت کو کم نہیں ہونے دیا ہے۔
للہ دید کی تعلیم میں وہی کچھ ہے جو تمام مذاہب کا فلسفہ ہے۔ اس یں ویشنوی باتیں بھی ہیں جو شیوازم کے بالکل برعکس ہے۔ جو صوفیانہ خیالات تعلیم اور طریقت کی سرگزشت ہے۔ صوفی ازم انڈیا اور کشمیرمیں للہ دید کے آنے سے بہت پہلے جڑ پکڑ چا تھا۔ تب مسیحی تعلیم اور بائبل کے بارے میں بھی لوگوں کی واقفیت نفی کے برابر تھی۔ مذہبی بنیاد پرستی کے اس دور میں للہ دید کی تعلیمات یوں تو غلط زمان تھیں ، پر اس کی سیکولر صورت نے قدامت پسندی کا صفایا کر دیا۔ شیخ نوار الدین ولیؒ نے للہ دید کو ماں کا مقام بخشا اور اس ماں نے کشمیر کی تاریخ سے متعلق علم کو عام کر دیا۔
للہ دید کی متاثر کن شاعری ، جسمیں سماجی بندھنوں اور اقتصادی بدحالی کے دائیں عذاب سے نڈھال لوگوں کی عکاسی کی گئی ہے، کاغذپر کہیں موجود نہیں تھی، بلکہ عام لوگوں کی زبان پر اور ان کی ثقافت میں رچ بس گئی تھی۔ آج جب لوگ وہی سیاست اور مذہبی قدامت پسندی کے ماحول میں رہے ہیں ہیں، للہ دید کی شاعری کی گونج برابر سنائی دے رہی ہے۔للہ دید نے سرداری نظام کا چولا تار تار کرنے کو فوقیت دی تھی، پر روایتی سماج کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے اس نے اپنی دانشمندی اور روحانی آزادی کا خاتمہ نہیں ہونے دیا۔
اپنی شاعری میں للہ دید نے محدود تہذیبی طور طریقوں، مذہبی، سماجی ، اقتصادی اور جنسی حد بندیوں اور باطنی علم کی افادیت کے بارے میں سوالات پوچھے ہیں۔ اس نے روایتی دوہری طبقہ بندے کے قلعے کو مسمار کر کے خدا اور قدرت اور ذات اور کائنات کے بارے میں آفاقی سوچ کا اجاگر کرنے کی تمنا کی ہے۔ صحیح بھگت کے بارے میں صحیح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ پیدا کرنے والے رب کو ہر شے کا مالک تسلیم کرتا ہے اور کائنات میں جو کچھ بھی موجود ہے اور جس رنگ میں بھی ہے وہ سب رب کائنات کی صوتیں مانتا ہے۔ للہ دید نے اپنی تعلیم کو ہوش مندی کی لفاظی صور میں یش کیا ہے اور ہر کوئی آسانی کے ساتھ اس کے بارے میں تصور کر سکتا ہے مثال کے طور پر للہ دید اپنی تعلیم کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ ہرے خیالات کو فنا کرکے اپنی ذات کو مالک کے وجود میں ضم کرنا، یخ برف اور پرانی کی شکلوں جیسا معاملہ ہے۔یہ تینوں چیزیں یوں تو الگ الگ لگتی ہیں پر سورج تینوں کو ایک ہی مرکب میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اسی رح صحیح تعلیم روح کو پیدا کرنے والے رب میں سمانے بلکہ تمام تر کائنات میں حصہ بننے کی راہیں منور کرتی ہے۔
للہ دید کے منہ سے نکلی باتیں ، نزاکت و نصیحت کا خزانہ یں، شاعری کی صورت میں یہ کلام کشمیری ثقافت کا پیچیدہ حصہ بن گیا ہے۔ اس نے اپنی فلسفیانہ اور مذہبی تعلیم کو قابل فہم اور باطنی بنانے کے لیے ارد گرد کے ماحول کو بطور مشابہت استعمال کیا ہے ۔ اس وقت لوگ ظالمانہ نظام برداشت کرنے کے عادی تھے۔ للہ دید نے اسی نظام کو للکارا اور ریت و رواج پر ثبت سرکاری اور شخصی مہر کو بے وقعت بنانے کا بیڑا اٹھایااس نے سرداری نظام اور جاگیردارانہ نظام کے درمیان گانٹھ سانٹھ کی پیداوار ظلم و ستم کے ماحول کا خاتمہ کرنے پر پوری قوت لگا دی۔ اس طرح سے سماج میں احساس محرومی کے شکار لوگوں کو للہ دید کی قابلیت اور عارفانہ شخصیت کے ساتھ عشق ہو گیا۔ مثال کے طور پر للہ دید نے ہنر مندوں اور کسانوں کے کام کو اپنی شاعری میں ابھارا۔ اس طرح کے لوگوں کے لئے سماج میں کوئی قدر و قیمت نہیں تھی۔
(نوٹ: ذیل مضمون شیخ محمد عبدللہ کی نواسی نائیلا علی خان جو امریکہ میں مقیم ہیں ، کی انگریزی تصنیف ’’اسلام ، وومن وائلنس ان کشمیر بٹوین انڈیا اینڈ پاکستان ‘‘ کے اردو ترجمہ سے مقتبس ہے۔”کشمیریت” نے کشمیر میں تاریخی شخصیات پر مختلف کالم اور تبصرے لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے یہ مضمون بھی اسلی سلسلے کی ایک کڑی ہے. مضموں بنیادی طور پر روزنامہ “چٹان ” سرینگر نے شائع یا تھا جسے بعد میں محترمہ نائیلا علی خان کی اجازت سے کشمیریت پر شائع کیا جا رہے ہے .)