ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ:
مہاراجہ گلاب سنگھ نے معائدہ امرتسر کے ذریعے انگریزوں سے کشمیر کو خریدا اور اپنی جاگیر کو وسعت دے کر ایک ریاست بنا لی ۔
پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ریاست کی تشکیل کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اس کو انسانوں کی خرید و فروخت کے ذریعے عمل میں لایا گیا ۔
اسی بنیاد پر مہاراجہ گلاب سنگھ کو ریاست جموں و کشمیر کا بانی ماننے سے بھی انکار کیا جاتا ہے اور اس کا کارن بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ کی ریاست اور اس ریاست میں حکومت چونکہ انسانوں کی خرید و فروخت کے مذموم اور غیر انسانی ھتھکنڈوں کے ذریعے قائم ہوئی تھی اس لیئے ایسی ریاست اور حکومت کو جائز تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔
یوں مہاراجہ گلاب سنگھ کسی ملک کا بانی نہیں ہے اور نہ اس کا تاریخ میں کوئی مقام ہے ۔
وہ صرف ایک قابض اور غاصب حکمران تھا جس نے انگریزوں سے ساز باز کر کے اپنی جاگیر کو بڑھاوا دیا ۔
وہ ایک ملک اور ریاست کا بانی نہیں ہے ۔
وغیرہ وغیرہ ۔
میرا آج کا موضوع انہی غلط فہمیوں کو تاریخی حقائق کی روشنی میں درست کرنا ہے ۔
جن غلط فہمیوں کا میں نے ذکر کیا ہے وہ معلومات کی کمی کی وجہ سے معرضِ وجود میں نہیں آئیں ۔ بلکہ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے جس کا ایک مقصد جان بوجھ کر مہاراجہ گلاب سنگھ اور ڈوگرہ دور کے خلاف سادہ لوح عوام کے دل و دماغ میں نفرت پیدا کرنا ہے جبکہ اس سازش کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ کشمیر کی اکثریتی مسلمان آبادی کو جموں کے ڈوگروں خاص کر ہندووں سے متنفر کیا جا سکے تاکہ جموں اور کشمیر کو تقسیم کرنے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچ سکے اور اس سازش کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگ اپنے آپ کو ایک سو ایک سالہ ڈوگرہ دور میں جو ایک قوم سمجھنا شروع ہو گئے تھے اس تصور کو ختم کیا جا سکے ۔
گویا گلاب سنگھ اور ڈوگرہ دور کے خلاف پروپیگنڈا ایک سازش ہے جس کا سوچا سمجھا مقصد ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرنا، اس ریاست کے عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنانا اور ریاستی عوام کے اندر سے قومی شناخت و مقام کو ختم کرنا ہے ۔ اور اس سازش میں قابض قوتیں گزشتہ ستر سالوں کی محنت کے بعد کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں ۔
میرے اس آرٹیکل کا مقصد یہ ہے کہ گلاب سنگھ پر لگنے والے الزامات کی جدلیاتی ہیئت کا تجزیہ کیا جائے اور تاریخی حقائق کے تناظر میں گلاب سنگھ کے قومی مقام کا تعین کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ گلاب سنگھ واقعی ایک وسیع و عریض ریاست کا بانی تھا اور اس ریاست کی تشکیل کا تعلق معائدہ امرتسر کے ساتھ نہیں ہے کہ گلاب سنگھ کو انسانوں کا تاجر قرار دے کر اسے اس کے جائز قومی مقام سے محروم کیا جا سکے ۔
قارئین کرام ۔ گلاب سنگھ نے جو ریاست بنائی تھی اور جس کا بانی ہونے کا اسے اعزاز حاصل ہے، معائدہ امرتسر کی وجہ سے اس ریاست کے وجود اور گلاب سنگھ کے قومی مقام پر کوئی آنچ نہیں آتی ۔
آج میرا موضوع یہ نہیں ہے کہ امرتسر معائدہ کیسے اور کن حالات میں ہوا اور کیا یہ انسانوں کا سودا تھا یا نہیں ۔ اس موضوع پر سینکڑوں دفعہ لکھا جا چکا ہے اور آئیندہ بھی لکھا جاتا رہے گا ۔
آج میرا موضوع دو بنیادی سوالات کے گرد گھومتا ہے:
1… اگر معائدہ امرتسر نہ ہوتا تو کیا گلاب سنگھ محض ایک جاگیردار ہوتا یا پھر بھی وہ ایک ملک کا بانی ہوتا؟
2… کیا گلاب سنگھ کو ایک ملک کا بانی معائدہ امرتسر کی وجہ سے قرار دیا جاتا ہے یا اس معائدے کے بغیر بھی وہ ایک ملک کا بانی ہے؟
آئیے تاریخ کے جھروکوں میں سے ان دو سوالات کے جواب تلاش کرتے ہیں ۔
پہلے سوال کے ضمن میں میں وضاحت کرتی چلوں کہ گلاب سنگھ نے جو ریاست بنائی تھی اس کی جغرافیائی اکائیوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:
ریاست کل تین صوبوں پر مشتمل تھی ۔ جس کا مجموعی رقبہ 86811 مربع میل ہے ۔
1… جموں ۔ اس کا کل رقبہ 13152 مربع میل ہے ۔ جبکہ آخری دستیاب مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق کل آبادی 8385288 ہے ۔
اس میں سے 10149 مربع میل بھارت کے کنٹرول میں جس کی آبادی 5378538 ہے جبکہ 3003 مربع میل (میرپور، بھمبھر، کوٹلی، پونچھ، حویلی، باغ اور سدہنوتی کے اضلاع) پاکستان کے کنٹرول میں ہے جس کی آبادی 3006750 ہے ۔
2… کشمیر ۔ اس کا کل رقبہ 8286 مربع میل ہے جبکہ کل آبادی 6967680 ہے ۔ اس میں سے 6156 مربع میل بھارت کے کنٹرول میں جس کی آبادی 6888475 جب کہ 2130 مربع میل (نیلم، ہٹیاں اور مظفرآباد کے اضلاع) پاکستان کے کنٹرول میں ہے جس کی آبادی 1561232 ہے ۔
3… تبتہا ۔ یہ صوبہ گلگت، بلتستان، لداخ، کارگل اور اقصائے چن پر مشتمل ہے ۔ اس کا کل رقبہ 65373 مربع میل ہے جبکہ کل آبادی 2974289 ہے ۔ اسمیں سے 22830 مربع میل بھارت کے کنٹرول میں جس کی آبادی 274289، 28167 مربع میل (گلگت بلتستان) پاکستان کے کنٹرول میں جس کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1800000 ہے جبکہ 14376 مربع میل (اقصائے چن) چین کے کنٹرول میں ہے اور اس علاقے میں کوئی آبادی نہیں ہے ۔
گلاب سنگھ نے معائدہ امرتسر کے ذریعے صرف کشمیر کو اپنی ریاست میں شامل کیا تھا ۔ باقی تمام علاقے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ڈوگرہ فوج کے ذریعے جنگوں میں مدِمقابل فریق کو شکست دے کر فتح کیئے تھے یا بات چیت کے ذریعے اپنی ریاست میں شامل کیئے تھے ۔
گویا معائدہ امرتسر کے ذریعے گلاب سنگھ نے صرف 8286 مربع میل کا علاقہ اپنی ریاست میں شامل کیا یہ علاقے ریاست کے کل رقبے کا صرف 9.5% بنتے ہیں جب کہ ان علاقوں کی کل آبادی موجودہ اعداد و شمار کے مطابق 8449707 بنتی ہے ۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ریاست کے تمام حصوں کی کل آبادی 18909284 ہے ۔ یوں معائدہ امرتسر کے ذریعے جو آبادی مہاراجہ گلاب سنگھ کی ریاست میں شامل ہوئی وہ ریاست کی مجموعی آبادی کا آج کے اعداد وشمار کے مطابق 44.69% ہے ۔
گویا معائدہ امرتسر کے بغیر ریاست کا کل رقبہ معائدہ امرتسر سمیت کل ریاست کا 90.5% تھا اور ریاست کی کل آبادی معائدہ امرتسر سمیت ریاست کی کل آبادی کا 55.31% تھی ۔
اب قارئینِ کرام خود فیصلہ کریں کہ معائدہ امرتسر کے ذریعے ریاست جموں و تبتہا کے ساتھ کشمیر کو شامل کرنے سے صرف 10% سے کم رقبہ اور آدھی آبادی سے کم آبادی (دس میں سے چار افراد) شامل ہوئی ۔ ان حالات میں اکثریتی آبادی اور کثیر رقبے کے حامل ملک کو اقلیتی آبادی اور قلیل رقبے کی بنیاد پر خرید و فروخت کے ذریعے تشکیل پانے والا ملک قرار دینا کس حد تک مناسب ہے ۔
پہلے سوال کے جواب میں میں نے جو اعداد و شمار پیش کیئے ہیں اُن سے دوسرے سوال کا جواب بھی وضع ہو گیا ہے ۔
اگر معائدہ امرتسر نہ ہوتا تو بھی گلاب سنگھ ایک وسیع و عریض ریاست کا بانی تھا اور اس کے اس قومی مقام پر معائدہ امرتسر کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
معائدہ امرتسر کہ اہمیت صرف اتنی ہے کہ اس معائدے نے 8286 مربع میل کی کشمیر وادی (جو وسائل سے مالامال علاقہ ہے) اور اس وادی سے ملحقہ پہاڑی علاقوں کو ریاست جموں و تبتہا کے ساتھ شامل کیا ۔
اگر معائدہ امرتسر نہ ہوتا تو کشمیر وادی اور ملحقہ پہاڑی علاقے 1947 میں ہی قانون آزادی ہند کی رو سے پاکستان بن گئے ہوتے اور کشمیر کا آج وہی مقام ہوتا جو ایبٹ آباد، مری اور ھزارہ وغیرہ کا ہے ۔
گویا کشمیر کی شناخت اور وجود کی بقاء معائدہ امرتسر کی مرہونِ منت ہے ۔
اگر معائدہ امرتسر نہ ہوتا تو ڈوگروں کی ریاست لداخ، گلگت بلتستان اور جموں پر مشتمل ہوتی اور 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کے پروگرام کے مطابق بھوٹان اور سری لنکا کی طرز پر ایک آزاد اور خودمختار ملک بن چکی ہوتی ۔ کیونکہ ان حالات میں نہ پاکستان ریاست پر حملہ کرتا اور نہ مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور ہوتا ۔
سچ پوچھیں تو معائدہ امرتسر کا فائدہ صرف اور صرف کشمیر اور کشمیریوں کو ہوا جب کہ جموں، لداخ اور گلگت بلتستان کو اس معائدے کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ۔
کشمیر کی وجہ سے ڈوگرہ ریاست ساری کی ساری 1947 میں destabilise ہوئی ۔
اگر معائدہ امرتسر نہ ہوتا تو کشمیر جموں اور گلگت بلتستان کے ساتھ نہ ہوتا اور اس لیئے ریاست جموں و تبتہا تقسیم بھی نہ ہوتی ۔ کبھی ڈوگروں کے خلاف کوئی سیاسی تحریک نہ چلتی (1931 سے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف شروع کی جانے والی تحریک صرف کشمیر وادی کے اندر اپنا اثر نفوذ رکھتی تھی اور ریاست کے دیگر علاقے اس تحریک کے اثرات سے آزاد تھے) ۔ گویا نہ کشمیر ہوتا، نہ ڈوگروں کے خلاف کوئی تحریک ہوتی، نہ مسلمانوں کی اکثریت ہوتی، نہ پاکستان حملہ کرتا، نہ ریاست تقسیم ہوتی اور نہ بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی نوبت آتی ۔ ہم سری لنکا، نیپال، میانمار اور بھوٹان کی طرح ایک آزاد اور خودمختار ملک ہوتے جہاں برطانیہ کی طرز پر آئینی بادشاہت اور پارلیمانی جمہوریت ہوتی ۔
اس ساری بحث کے بعد جو منظر نامہ سامنے آتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معائدہ امرتسر کا سارے کا سارا نقصان اس ریاست کو ہوا جو اس معائدے کے بغیر گلاب سنگھ نے تشکیل دی تھی اور معائدہ امرتسر کا سارے کا سارا فائدہ کشمیر اور کشمیری عوام کو ہوا کہ انہیں ایک شناخت اور ایک وجود ملا جو معائدہ امرتسر کی عدم موجودگی میں انہیں کبھی نصیب نہ ہوتا ۔
اگر معائدہ امرتسر نہ ہوتا تو کشمیری پاکستان میں شامل ہو کر کب کے سوات، کلات اور چترال وغیرہ کی طرح اپنا وجود اور شناخت کھو چکے ہوتے ۔
معائدہ امرتسر نہ ہوتا تو جموں پھر بھی ایک ریاست اور ایک ملک ہوتا ۔ گلاب سنگھ پھر بھی ایک ملک کا بانی ہوتا اور ہری سنگھ اپنی حب الوطنی اور بے مثال عدل و انصاف کی بنیاد پر تاریخ میں امر ہو چکا ہوتا ۔
اس لیئے معائدہ امرتسر کا معاملہ اٹھا کر ڈوگرہ دور، گلاب سنگھ اور ہری سنگھ کو ان کے جائز قومی مقام سے گرانا کسی صورت بھی تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں ہے ۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔