نظریہ ، سوچ، فکر مختلف طریقوں سے وجود میں آتے ہیں۔ کسی علاقے کی جغرافیائی وحدت کے اندر پنپتا ہے، مخصوص سیاسی سوچ کے تحت، معاشی اور معاشرتی مفادات کی روشنی میں، دو نظریات کا باہم مل کر ، وغیرہ وغیرہ۔ اس لحاظ سے نظریہ ہمیشہ ارتقاء میں رہتا ہے۔ یہ شخص سے شخص ، گروہ سے گروہ ، ریاست سے ریاست اور بین الاقوامی حیثیت مین بھی اپنا وجود رکھتا ہے ۔ کچھ نظریات وقتی ضروریات کے تحت ہوتے ہیں ، یعنی کچھ جز وقتی اور کچھ کل وقتی ہوتے ہیں جز وقتی معروضی ہوتے ہے جب کہ کل وقتی بین القوامی سطح پر بھی اپنا وجود رکھتے ہیں ۔ اب انہی نظریات میں سے مزید نظریے بھی نکلتے ہیں پنپتے ہیں بعض مر جاتے ہیں اور بعض اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہین ۔ ضروری نہیں کہ ایک نظریہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ آخری لمحات تک یونہی برقرار رہے بلکہ وہ وقت اور ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتا ہے ۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال میں سیاست نظریات اور فکر کی بنیاد پر ہی کی جا رہی ہے، معاشی اور معاشرتی نظام تو مفقود ہے تاہم صرف سیاسی کشتیاں ہیں جو ہمہ وقت لڑی جا رہی ہیں ۔ مگر ان سب نظریات کی بنیاد اصل میں ۱۹۴۷ء کے لگ بھگ پڑی ہے ۔۔ مسلم کانفرنس ریاست کے اندر نظام کی تبدیلی کا نظریہ لے کر اٹھی، لیکن اس کے مقاصد کمزور اور ایک مخصوص گروہ کے گرد گھومتے تھے تو نیشنل کانفرنس کا وجود عمل میں لایا گیا۔ برطانیہ کے راج کے خاتمہ کے فوراََ بعد جب دو نئی مملکتیں وجود مین آئیں تو دونوں جماعتوں کے نظریات اور فکر مین بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں خواہ وہ شخصی یا گروہی تھیں۔ یوں کشمیر کا حشر نشر ہو گیا۔ بعد مین نظریہ خود مختار کشمیر جو کہ اس سے قبل بھی کسی نہ کسی طور موجود تھا ظاہر ہوا تو معاذ رائے شماری،لبریشنلیگ، لبریشن فرنٹ جیسی جماعتوں کا وجود عمل میں آیا جن کے نظریات میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی گئی مثلاََ سنہ ۶۵ سے قبل کا نظریات ، ۸۴ میں پھر یہ نظریہ تبدیل ہوا اور پھر ۹۸ مین بھی اس مین تبدیلی آئی اس کے علاوہ دیگر چھوٹی موٹی تنطیمیں مثلاََ طلباء کی تنظیمیں، پی این پی ، کے این پی ، نیپ وغیرہ بھی منظم ہوئیں۔ گر چہ سب کا بنیادی نظریہ ایک ہی تھا مگر سیاسی مقاصد اور طریقہ جدوجہد میں کافی تضاد تھا تاہم ایک چیز جو ان سب میں باہم مشترک رہی وہ یہی تھی کہ یہ تمام تنظیمیں ایک تو لامرکزیت کا شکار رہیں اور دوسری یہ مخصوص مکتبہ فکر کے گرد بھی گھومتی رہیں اور عوامی سیاست سے باز رہیں شاید یہی جہ تھی کہ مسلم کانفرنس اور پھر پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں ایک عرصہ سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ چہرے تو بدل رہے ہیں مگر مقاصد ایک جیسے ہیں ہیں ۔ ان آزادی پسند تنظیمیوں کی غیر حاضری کی وجہ سے کشمیر کی سیاست مین ایک خلا رہا جو کہ اب پاکستان سے ن لیگ، ایم کیو ایم، ق لیگ ، پی ٹی آئی وغیرہ آ کر پورا کر رہی ہیں اس سورتحال میں عوام کا اپنے مفادات کے پیش نظر ان سیاسی جماعتوں کا حصہ بننا لازمی امر ہے۔
اس وقت کشمیر میں لبریشن فرنٹ ایک بڑی جماعت ہے اور انتخابات سے قطعہ تعلقی اور بائیکاٹ اس کا خاصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس جماعت میں ڈاکٹر ، انجینئر اور پڑھے لکھے لوگ تو موجود ہیں مگر وہی قبیح روایات لے کر آگے چل رہے ہیں ساتھ ساتھ یہ جماعت لا مرکزیت کا شکار بھی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا آزادی پسندوں کو آزاد کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ موجودہ فکر اور نوجوانوں کے ایک گروہ کو دیکھا جائے تو وہ اس بات کے حق مین ہیں کہ لینا چاہیے۔ جبکہ چند لوگ اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں کہ نہیں لینا چاہیے۔ دیگر جماعتیں گر چہ ماضی میں کسی نہ کسی طور انتخابات میں حصہ لینے کا نہ صرف اعلان کر چکی ہیں بلکہ لے بھی چکی ہیں۔ اس سوال کاجواب کہ انتخابات مین حصہ کیوں نہیں لینا چاہیے وہ یوں دیتے ہین کہ پہلی وجہ یہ ہے کہ الیکشن مین حصہ لینے کے لیے الحاق پاکستان کی شق پر دستخط کرنے پڑتے ہیں دوسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں ہمیشہ پاکستان حکومت کے نور نظر ہی اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں ، تیسری وجہ یہ ہے کہ ایکٹ ۷۴ کی موجودگی میں کشمیر میں ایک آزاد اور خود مختار حکومت کا قیام عمل مین نہیں لایا جا سکتا۔ اس کے علاوہ ہم سیاسی سطح پر ابھی اتنے مستحکم نہیں ہیں اور ہم الیکشن میں حصہ لینے کے مستحمل نہیں ہو سکتے جیسے جوابات سننے میں آتے ہیں ۔ دنیا میں اس وقت تک جتنے بھی ارتقائی عمل یا انقلابات رونما ہوئے ہیں سب کے سب عوام کی تحریک کی وجہ سے ہوئے ہیں نہ کہ کسی مخصوص فکر کی تحریک کی وجہ سے ۔ عوامی نظریات سیاسی طوفانوں کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ان ہواؤں کے رخ کو تبدیل کرنے کے لیے آزادی پسند سیاسی جماعتوں کا انتخابات میں حصہ لینا نا گزیر ہو گیا ہے اس سے کئی طرح کے نتائج سامنے آئین گے۔ انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے گا کہ عوامی سطح پر لوگ ان کو کتنا پسند کرتے ہیں ، یہ اس قابل ہو جائین گے کہ اپنی آواز کو سیاسی ایوانوں تک پہنچا سکیں اگر یہ چند ایک نشستیں حاصل کر لیتے ہیں یا حکومت بنا لیتے ہیں تو یہ بین الاقوامی دنیا میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں اور پاکستان اور بھارت سے باہم برابری کے سطح پر بات چیت کر سکتے ہین جو کہ اس سے قبل کبھی بھی نہیں ہوا ہے ۔ اس وقت جدید ریاستوں میں یہ چیز بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے فیصلے عوام کی منشاء کے مطابق ہوتے ہیں نہ کہ گروہی سیاست کی وجہ سے ۔ اس لیے یہ امر لازمی ہو چکا ہے اب یہ سیاسی تنظیمیں اپنے نظریات کا از سر نو جائزہ لیں اور انہیں جدید جدوجہد کے مطابق ڈھالیں تاکہ آزادی کشمیر کے اسباب پیدا ہو سکیں وگرنہ دیگرجماعتیں تو اپنے پانچ پانچ سال پورے کرنے ہی اقتدار مین آتی ہیں ان سے یہ امید لگانا کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتی ہیں ہی بے وقوفانہ حرکت ہے ۔
اب کی بار بھی کشمیر میں آزادی پسند سیاسی جماعتوں کا طرز عمل کچھ ملا جلا سا ہے کچھ سیاسی جماعتوں نے مثلا نیشنل عوامی پارٹی، یونائیٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی، کشمیر نیشنل پارٹی اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک دھڑے نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں الیکشن کی مخالفت میں مہم چلا رہی ہیں مجھے واقعی خوشی ہو گی اگر یہ دس لوگوں کو بھی ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روک سکیں جو ان کی تنظیم کے ساتھ وابسطہ نہ ہوں۔ ایک بات تو طے ہے کہ جب تک اداروں سے منسلک نہیں ہوں گے تب تک کسی بھی نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب تک فلور پر نہیں آئیں گے تب تک اپنے نظریات کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر نہیں کر سکتے ۔ کسی بھی الیکشن مین اس کے خلاف مہم چلانے کا مطلب ہم تحریک آزاد میں مزید پانچ سال پیچھے اور آزادی سے اتنے ہی دو ہو رہے ہیں۔ خیر دیر آید درست آید۔ اسمبلی فلور پر آ کر اداروں سے منسلک ہو کر اب ان معائدات کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے ان کے خلاف تحریک بھی چلائی جا سکتی ہے اور یہ بات ہوائی قلعوں سے زیادہ عقل کے قریں معلوم ہوتی ہے۔
جواداحمدپارسؔ