اے۔ایچ۔آزاد
میر ے محسن سے مجھے ایک ہی گلہ ہے کہ اس کے پا س وقت نہیں ہوتا ۔چندروز قبل نصف شب ملا قات نصیب ہو ئی۔ چا ئے کی پیا لی پر طو فان بر پا کر نے کے بر عکس سحر ی کر با بر کت اگٹھ پر جنو بی ایشیاءاور خصوصا کشمیر کے مو ضو عا ت سمت سما جی رویوں پر گفتگو ہو ئی۔ میر ے محسن نے مسئلہ کشمیر حل ہو نے تک پاکستان کے زیر انتظام ریا ست کو حقوق دینے ،عا لمی سیا حت کے فروع اور امن وا مان کیلئے تجو یز دی کہ حکومت پاکستان آز اد کشمیر کو با اختیار ریاست بنا کر خطہ سے اپنی فو جیں کم کرے ۔ بھو ٹان طرز پرپاکستان سفا ر تخانوں میں کشمیر ڈیسک قا ئم کر کے ریاست کو دنیا سے جو ڑ ا جا ئے۔ دفا ع اور خارجہ امو ر کے علا وہ تمام امور کشمیر حکومت کے حوالے کر کے اسے دنیا کے لیے رول ماڈل بنا یا جا ئے۔ آزاد ریاست میں امن وامان کے قیام کےلئے جاپان کی طرزپر گاو ¿ں ومحلہ کی سطح پر کمیٹیاں قائم کی جائیں جو علاقے میں آنے جانے والے پر شخض پر نظر رکھیں اور انتظامیہ کو رپورٹ بھیجیں۔ تجو یز بہت پسند آئی ، کیو نکہ اس تجو یز سے حکومت پاکستان کے مفا دات کو نہ تو کو ئی خطر ہ ہے اور نہ ہی اس عمل درآمد میں مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔ تجو یز پر کو ئی رائے دینے سے پہلے بھو ٹان کی تا ریخ و محل وقوع کا جا ننا ضروری ہے ۔
بھو ٹان ہما لیہ کے اختتام پر 46ہز ار 5سو مر بع کلو میٹر پر پھیلا ملک ہے ۔جو جفرافیائی اعتبار سے مشر قی اور مغر بی دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ بد ھ مت سب سے بڑا مذ ہب جبکہ ہند و مت دو سر ا بڑا مذ ہب ہے ۔ بھو ٹا ن کی سر حد بھا رتی ریا ست آسا م، ویسٹ بنگلال اور چین سے ملتی ہے ۔ تا ریخ پر نظر دو ڑائی جا ئے تو دو ہز ار سال سے بھو ٹا ن کے وجود کے آثا ر ملتے ہیں ۔ طا قت اور اقتدار کے لیے یہ ملک بھی کئی با ر جنگی میدان بنا ۔ 1870میں دو بڑے قبائل کے ما بین طا قت کے حصول کی لڑ ائی شر وع ہو ئی۔ جو 1970میں با دشا ہ کے چنا ﺅ پر اختتا م پذیر ہو ئی۔ بھو ٹان نے 1910میں اپنے خا رجہ امور بر طا نیہ کے سپر د کیے ۔ 1947میں تا ج بر طا نیہ کی واپسی کے بعد بھو ٹا ن نے بھا رت کیساتھ خارجہ امور معا ئد ہ کر لیا۔
1947 میں انگر یز وں کی واپسی نے نہ صر ف بر صغیر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا بلکہ بید اری کی لہر کو پورے جنو بی ایشیاءمیں محسو س کیا گیا ۔ بھو ٹا ن میں بھی تبد یلی کے اثر ات کے باعث 1953ءمیں با دشا ہ نے قانون سا ز اسمبلی قا ئم کی ۔ 1968ءتک مز ید اصلا حا ت کے بعد کا بینہ تشکیل دی گئی ۔2008میں پہلی با ر بھو ٹا ن میں عام انتخابا ت ہو ئے اور دو تہا ئی اکثر یت حا صل کر نے والی جماعت کواقتدار ملا، با دشا ہ نے اختیا ر ات کا بینہ کے سپر د کردیے 2013کے انتخا بات میں پیپلز ڈ کریٹک پا رٹی نے دو تہا ئی اکثرت حا صل کی ۔
بھو ٹا ن میں بھارت اور بنگلہ دیش کے سو ا کسی بھی ملک کا سفار تخانہ نہیں۔ امر یکہ ، یورپ ،افریکہ سمیت تمام دنیا سے ضروری معلو ما ت کا تبا دلہ ڈھا کہ اور نئی دہلی میں قا ئم بھو ٹا ن کے سفا رتخا نو ں کے ذریعے کیا جا تا ہے جبکہ دنیا بھر میں مو جو د بھارت کے سفا رتخا نوں میں بھو ٹا ن ڈیسک قا ئم ہیں ۔ دنیا بھر سے سیاح ان ہی بھوٹان ڈیسکوں سے استفادہ حا صل کر تے ہیں ۔بھو ٹا ن کی اپنے دفا ع کے لیے رائیل بھو ٹا ن آرمی مو جو د ہے جسے بھا رتی فو ج تر بیت فر اہم کر تی ہے ۔ بحر ی فو ج اور فضا ئیہ کا وجود ہی نہیں ۔ رائیل بھو ٹا ن پو لیس اور رائیل بھو ٹا ن با ڈی گا رڈ ملک میں نظم و نسق کا کنٹر ول سنبھالے ہو ئے ہیں ۔
بھوٹان کے شہری بغیر ویز و پا سپورٹ کے بھارت کا سفر ،بھارت میں قیام اور کا رو بار و نو کر ی کر سکتے ہیں ۔اسی طر ح بھا رتی شہری بھو ٹا ن جا سکتے ہیں ۔ بھو ٹا ن کی کر نسی الگ ہے مگر بھا رت میں شرف قبو لیت حا صل ہے ۔ دو نو ں ملکو ں کی کر نسی کی قدر بھی مشتر ک ہے ۔ خا رجہ پا یسی نہ ہوو نے کے با وجو د بھو ٹا ن کو 1971میں اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ۔ 1985ءمیں سا رک کا ممبر بنا ۔ور لڈ بنک آئی ایم ایف سمیت 150عا لمی تنظیموں کا بھی ممبر ہے ۔
بھو ٹان میں ریلو ے نہیں ۔ 2005میں بھا رتی ریلو ے نے ملک کے دو نوں حصوں کو ملا نے کیلئے ایک معا ئد ے کے تحت منصو بے پر کام شر وع کر رکھا ہے ۔ ملکی معیشت میں اہم کر دار زراعت کا ہے اس کے بعد جنگلات سیا حت اور بجلی کی پید ا وار ہے۔ پہا ڑی سلسلو ں پر مشتمل ملک ہو نے کے با عث دو نو ں حصوں میں چھو ٹے بڑے 20دریا بہتے ہیں۔ بھو ٹا ن اپنے پا نیو ں سے بجلی پید ا کر کے بھا رت کو فر وخت کر تا ہے ۔
1974ءسے قبل بھا رتی شہر یوں کے علا وہ کو ئی بھی غیر ملکی بھو ٹا ن کا سفر نہیں کر تا تھا۔ 1974میں بھو ٹا ن کے با دشا ہ نے سیاحت کو روز گار کا ذریعہ بنا نے کا فیصلہ کر تے ہو ئے سیاحتی پالیسی کا اعلا ن کیا تو پہلے ہی برس 19لا کھ سے زائد غیر ملکیو ں نے بھو ٹا ن کا سفر کیا ۔ سیا حت کی صنعت بھوٹان کی تیسری بڑی صنعت بن چکی ہے۔ ملک میں خا نہ جنگی،تصا دم کی صور تحال نہیں ۔ ہند و اور بد ھ با ہمی اتحاد و اتفا ف سے رہتے ہیں ۔ 2006کے ایک عا لمی سر وے میں بھو ٹان ایشیاءمیں خو ش لو گو ں کا ملک قر ار پا یا جبکہ دنیا میں خو ش لو گو ں والے مما لک میں آٹھو یں نمبر رہا ۔
میر ے محسن کی تجو یز ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام آز اد کشمیر” آز اد “کیا جائے آزاد کشمیر میں نا فد قا نون ایکٹ 1974ءکے 56آر ٹیکل میں سے 52 آرٹیکل پاکستان کی وز ارت امور کشمیر کے پاس ہیں ۔آزاد کشمیر کا اپنا صدر ، وزیر اعظم ہو نے با وجو د آز اد کشمیر میں ججز الیکشن کمشز کی تقر ریا ں چیئرمین کشمیر کونسل (وزیر اعظم پاکستان ) کی منظوری سے کی جا سکیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی کو محد ود قا نو ن ساز ی کی اجا زت ہے مگر قا نون سازی کے بعد وز ارت امور کشمیر سے اس کی منظوری لینی پڑتی ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان ۔ وز ارت امو ر کشمیر ،جی اوس مر ی، چیف سیکریٹری ، انسپکٹر جنر ل پولیس ، سیکرٹری ما لیات اورآڈ یڑ جنرل کی صورت میں آز اد کشمیر حکومت کے اوپر 8سے زائد حکومتیں قا ئم ہیں،اس لیے یہ آزادی جھوٹ فراڈ پر مبنی ہے ۔
غیر ملکی آزاد کشمیر کا سفر نہیں کر سکتے ،اس کیلئے پاکستان کی وزارت داخلہ سے منظوری لینی پرتی ہے ۔ ایکٹ 1974کے تحت آزاد کشمیر حکومت کو ریاست میں بہنے والے دریاو ¿ں اور ندی نالوں پر ہائیڈرل پراجیکٹ کی تعمیر کی بھی اجازت نہیں ۔حکومت پاکستان اپنی مرضی سے ڈیم اور میگا ہائیڈرل پراجیکٹ تعمیر کرتی ہے ،جب آزاد حکومت واٹر چارجز یا نیٹ ہائیڈرل پرافٹ کی بات کرئے تو صرف اتنا جواب دیا جاتا ہے کہ آزاد کشمیر آئں کے تحت پاکستان کا حصہ نہیں ہے ۔ زمانہ جا ہلیت میں تو یہ سب قا بل قبو ل تھا کیو نکہ آز اد کشمیر کے مختلف علا قوں کے سر داروں منتخب ممبر ان اسمبلی کو لا لچ و مر اعات دیکر عوام کو بیووقوف بنا یا گیا تھا ۔ مگر اب نسل نو قدم قد م پر سو ال اُٹھا رہی ہے ۔ جعلی آزادی کے باعث پاکستان کے خلاف نفرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔
حکومت پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ آزاد کشمیر کو ”آزاد “کرکے سب سے پہلے آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرئے ۔ بھوٹان کی طرح بعض امور با قا عد ہ معا ہد ہ کے تحت اپنے پاس رکھے جا ئے ۔ آزاد کشمیر کو ایسا ملک بنا یا جا ئے جس میں امن و سلا متی ہو ۔جھنڈا ، ترانہ خالص آزاد کشمیر کاہو ۔پاکستان آرمی میں موجو د آزاد کشمیر کے جوانوں پر مشتمل” کشمیر فورس“ بنائی جا ئے اور بوقت ضرور پاکستان آرمی کی خدمات حاصل کیے جا نے کا بھی معا ہدہ ہو ۔آزاد کشمیر کو تعلیمی ریاست بنا کر دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈہ کو ختم کیا جا ئے ۔دنیا بھر میں مو جو د پاکستا نی سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قا ئم کیے جا ئیں۔ حکومت پاکستان کے اس اقد ام سے کشمیر ی عوام کی پاکستان کے ساتھ وابستگی بڑ ھے گئی اور مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ بھی ہموار ہو گی۔