یہ ھمارے ملک اور قوم کی ستم ظریفی ھے کہ ھمارے سیاسی کارکن، سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں دینی مدارس کے کلچر سے باھر نہیں نکل پائے –
یہ عام مشاھدے کی بات ھے کہ جب بچے دین سیکھنے کے لئیے کسی مدرسے میں داخل ھوتے ھیں تو انکو پہلا سبق یہ دیا جاتا ھے کہ امام کی بات حتمی اور آخری ھے –
مدرسے کے ماحول میں صرف یہ تربیت دی جاتی ھے کہ امام صاحب بہت زیادہ عالم فاضل تھے، انھیں بہت سی زبانوں پر عبور تھا اور انھوں نے بہت زیادہ کتابیں پڑھ رکھی تھیں، وہ ھر معاملے پر غور کر کے تمام مسائل کا حل بتا چکے ھیں اور اب پیروکاروں کا کام صرف یہ ھے کہ امام صاحب کے بیان کردہ تمام مسائل کا کامل علم حاصل کریں اور اس نور کو دنیا تک پھیلائیں –
درس کے دوران طالب علم کو اپنے کان، دماغ، آنکھیں اور دیگر تمام انسانی طاقتوں کو محض اپنے امام کی کامل اطاعت کے مقصد کی خاطر استعمال کرنے کا ھنر سکھایا جاتا ھے – اور اس ماحول میں جب طالب علم پندرہ بیس سال گزار کر باھر نکلتا ھے تو اس کی دستار بندی کی جاتی ھے اور وہ بہت بڑا عالم دین اور حافظ بن جاتا ھے – اب یہ عالم جو مرضی ھے کرے، وہ خود بھی جنت میں جائے گا اور اپنے ساتھ دس اور قریبی لوگوں کو بھی جنت میں لے جائے گا – یہ ھے ھمارا دینی ماحول اور دین کے تربیتی مراکز کا کلچر –
بدقسمتی سے یہی حال ھمارے سیاسی کارکنوں، قائدین اور جماعتوں کا بھی ھے –
ھمارے سیاسی کارکنان کو بھی شاید آنکھیں، کان اور دماغ بند کرنا ھی سکھایا جاتا ھے – اسی لئیے تو وہ اپنے سیاسی پیر و مرشد کے علاوہ کسی اور کی بات سن اور سمجھ نہیں پاتے – بالکل دینی مدرسے کے طالب علم کی طرح – سیاسی کارکنان اپنی سیاسی جماعتوں کے پروگرام اور منشور سے باھر کسی شئے کو دیکھنے کی صلاحیت بالکل اسی طرح کھو دیتے ھیں جیسے دینی مدرسے کے طالب علم اپنے فرقے کی حدود سے باھر نہیں جھانک سکتے –
دینی مدرسے کے طالب علم کی کل کائنات اس کا فرقہ اور اسکا امام ھوتا ھے – کچھ یہی حال ھمارے سیاسی کارکنان کا ھے – انکی کل کائنات ان کی سیاسی پارٹی اور بسا اوقات انکی اپنی سوچ اور فکر ھوتی ھے –
اس مدرسہ کلچر نے ھمارے دماغوں کی تمام کھڑکیوں کو بند کر دیا ھے – ھمارے کان بہرے ھیں، ھماری آنکھیں اندھی ھیں اور ھماری زبانیں گنگ ھیں –
ھمیں اس دینی فرقہ بندی کے کلچر سے باھر نکلنا ھو گا –
سیاست ایک سماجی سائینس ھے – سماج کی ضروریات اور احتیاجات وقت کے ساتھ بدلتی رھتی ھیں – علم میں اضافے کے ساتھ سماجی رویے بدل جاتے ھیں اور جو سیاسی جماعتیں ان بدلتے سماجی رویوں کے مطابق اپنے پروگرام اور حکمت عملی میں تبدیلی پیدا نہیں کر سکتیں و ساکت و جامد ھو جاتی ھیں اور وقت کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پاتیں – یوں وہ سماج میں اپنا کردار کھو بیٹھتی ھیں –
گزشتہ 69 سالوں میں ھمارے وطن کی تمام قوم پرست سیاسی جماعتوں کا یہی حال رھا ھے – چنانچہ آج ھم دیکھتے ھیں کہ قوم پرست سیاسی جماعتیں اور کارکنان سماج سے کٹ چکے ھیں اور انکا معاشرتی کردار نہ ھونے کے برابر ھے –
اب بھی وقت ھے – اگر ھمارے سیاسی کارکنان اور سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو نئے علم کی روشنی میں تبدیلی کے عمل سے ھمکنار کر لیں تو ھماری قومی سیاسی تحریک کا خلاء پر کیا جا سکتا ھے – لیکن اگر رویوں میں تبدیلی نہ لائی گئی تو ھماری سیاسی جماعتیں اور کارکنان اپنا وجود تاریخ کی گرد میں گم کر لیں گے –
یاد رکھئیے – تغیر اور تبدیلی زندگی کی علامت ھے جبکہ جمود اور سکوت موت کی نشانی –
تاریخ کا پہیہ ھمیشہ گھومتا رھتا ھے – ھر نیا دن انسانی علم میں اضافے کا سبب بنتا ھے – علم میں اضافہ رویوں میں تبدیلی کا پیش رو بنتا ھے اور بدلتے رویے ھی سماجی تبدیلیوں کو اپنے اندر سمو سکتے ھیں –
ھم ملک و قوم کے نجات دھندہ ھیں –
ھمارے پاس تمام سماجی مسائل کا حل ھے –
ھمارا پروگرام سب سے بہتر ھے –
ھم عوام کے ساتھ سب سے زیادہ مخلص ھیں –
ھم سب سے زیادہ سچے ھیں –
بہت ھو چکی یہ گردان – وقت اور حالات بدل چکے ھیں – علم کے نئے باب کھل چکے ھیں –
جو بھی اب اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لائے گا وہ مٹ جائے گا –
اچھا سیاسی کارکن وھی ھے جو ان سماجی تبدیلیوں کا احاطہ کر سکے – ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے – سماجی رویوں کا ادراک کر لے –
جو ایسا کرے گا وھی ملک اور قوم کی رھنمائی کا فریضہ سر انجام دے گا –
(ثمینہ راجہ – جموں و کشمیر)
Load/Hide Comments