دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
اکتیس مارچ 2015 ، رات کے وقت ،یاسر خواجہ کے موبائل پہ ایک کال آتی ہے، گھر سے باہر بلایا جاتا ہے، اور اس کے بعد گھر واپسی اس کا مقدر نہیں ہوتی۔ اکتیس مارچ سے نو اپریل تک کیا ہوا بہت سے لوگ ابھی تک اس نے لاعلم ہیں۔ یہ نو دنوں کے اندر ایک شخص پہ ظلم نہیں ہوا بلکہ انسانیت کے ساتھ درندگی کا کھیل کھیلا گیا۔ زمین والے تو بے خبر تھے لیکن آسمان والا سب دیکھ رہاتھا ۔ اور لوگوں کو بتا بھی رہا تھا کہ تمہارے علاقہ میں کچھ غلط ہو رہا ہے۔ 2 اپریل کو اس کے آبائی علاقے کالا مولا کے قریب ایک بہت مضبوط پہاڑ نے اچانک سرکنا شروع کر دیا۔ لیکن خلق خدا کو توجہ ظلم کی اندھیر نگری کی طرف نہیں گئی۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں مست تھا۔ پولیس حسبِ معمول فائلوں کے پیٹ بھرنے میں مصروف تھی، بڑے پیٹوں والے اپنے پیٹوں کی فکر میں تھے۔ لیکن کہوٹہ شہر کے اندر درندے درندگی کی انتہا کرتے رہے۔
یاسر کو اپنے پاس بلانے کے بعد آگے کیا کیا گیا، یہ سب اس کی ڈیڈ باڈی گواہی دے رہی تھی۔ اس کے نازک اعضا ء کو کاٹ کے مردانگی کا ثبوت دیا گیا، جسم پہ جگہ جگہ گرم سلاخوں سے نشان زدہ کیا گیا۔ ایک آنکھ نکال کر یہ بتایا گیا کہ انصاف کی بھی ایک آنکھ ہوتی ہے۔
اور پھر 8 اپریل کو یاسر کو ان سب درندگیوں سے گزارنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اور نعش قریبی نالہ میں پھینک دی گئی۔ نویں دن پولیس اس کے نمبر پہ آنے والی کال کو ٹریس کرنے میں کامیاب ہوئی، جی ہاں نویں دن، جس عرصہ میں آپ پوری دنیا کا چکر لگا کے واپس آ سکتے ہیں ، ہماری پولیس نو دن میں صرف ایک کال ریکارڈ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئی۔
ذرا ایک لمحہ کے لئے یہ سب مظالم اپنی ذات سے ہوتےمحسوس کریں، صبح شام خونخوار بھیڑئیے آپ کو نوچ رہے ہیں، آپ کو کس کرب سے گزرنا پڑے۔ ذرا اپنی آنکھ کے نکلنے کا منظر اپنی بند آنکھوں سے دیکھیے۔ یہ کرب محسوس کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ایسی ہی ایک واردات دو بھائیوں کا قتل تھا، اس میں بھی یہی طریقہ آزمایا گیا تھا۔ دونوں واقعات میں ایک ہی خاندان کے لوگ شامل تھے۔ اور مظالم کی ایسی داستان رقم ہوئی کہ چنگیز خان کی روح بھی کانپ اٹھی ہو گی۔ واردات کا انوکھا پہلو یہ ہے کہ یہ تینوں اندھے قتل تھے، جن کا جائے وقوعہ کا کوئی گواہ دستیاب نہیں ہوتا اور قانون مطمئین نہیں ہوتا اور فائل بند ہو جاتی ہے۔
اسی دوران میں ایک چندہ مافیا بیدار ہوتا ہے، سادہ لوح لوگوں کو برادری کی خاطر قربانی کا جذبہ ابھارا جاتا ہے اور لواحقین کو کچھ رقم دے کے یہ کہہ کے مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مرحوم تو واپس نہیں آ سکتا لیکن بصورت دیت قبول کر لیں۔ اور اگلے قتل تک سنسان خاموشی ہو جاتی ہے۔
یہ سب کوئی ایک فرد نہیں کر سکتا، اس کے لئے ایک منظم گروہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو پلاننگ سے لے کے ایگزیکیوشن تک اور پھر مابعد از واردات عدالت، کورٹ کچہری تھانہ سب کا منظم انداز میں بندوبست کیا جاتا ہے۔ اور ملزم سرعام دندناتے پھرتے ہیں۔ مقتول اور انصاف دونوں کا مذاق اڑتا ہے لیکن معاشرہ خاموش تماشائی بنا دکھتا ہے۔
اس گروہ کا سرخیل اور سرغنہ کون ہے؟ یقنا وہی جو اس کا فائدہ لیتا ہے یا لینا جانتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی گروہ اس وقت تک مضبوط نہیں ہوتاجب تک اس کا سردار نہ ہو۔ اور سردار کون ہےیہ سب جانتے ہیں۔
حویلی کے اندر نفرتوں کے بیج بونے، تعلیم کے قاتل، برادری ازم کے سانپ کوپالنےپوسنے، جوانوں کو بے راہ روی، قتل، شراب اور درندگی کے سبق پڑھانے والے، سکول، کالج جانے والی عمروں میں قتل بدمعاشی اور تھانے کچہری کے چکر لگانے والے کو تو اپنی اخروی جواب دہی کااحساس چھو کرنہیں گزرہ لیکن ہر فرد کی اپنی قبر قیامت تو ہے۔
جب میٹرک فیل جوانوں کو اوپن یونیورسٹی کی جعلی ڈگریاں تھما کے استاد بھرتی کیا گیا تو اس کے یہی نتائج نکلنا تھے۔ جب سکولوں میں سیاست کا بازار گرم ہو گا تو جوان ایسے ہی پیدا ہوں گے۔ جب شرفاء کی بچیوں کے ریپ کو عدالتی تخفظ دیا جائے گا تو یہی بھگتنا ہوگا۔
میں ذاتی طور پہ سیاست اور برادری ازم سے دور رہنے کا شدید قائل ہوں۔ مجھے نفرت ہے ان افراد سے جو اس کی پرموشن کرتے ہیں۔ میری نظر میں شرفاء کی برادری الگ ہے، بدمعاشوں کی الگ۔ شرابیوں کی الگ، غیر شرابیوں کی الگ، قاتل کی اور مقتول کی اور۔ لیکن اس وقت میں یہ سوچنے پہ مجبور ہو چکا ہوں کہ اگر ایک خاندان کی تربیت ان خطوط پہ ہو رہی ہے تو باقیوں کو بھی خقِ خود دفاعی پہ بھی سوچنا ہو گا۔
اس وقت میں سب خاندانوں کو دعوتِ فکر دیتا ہوں کہ وہ آئیں، ہم سب مل کے کوئی لائحہ عمل تیار کرتے ہیں، بشمول اس خاندان کے سنجیدہ طبقہ فکر کے۔ جو یہ چاہتے ہیں کہ اندھیر نگری کا خاتمہ ہو۔ آئیں سیاست سے ہٹ کے انسانیت کا بھی کچھ سوچتے ہیں۔ ایک فرد یا کچھ افراد کے سیاسی مفادات کے تحفظ کیوں نسلوں کی نسلیں تباہ کرنے پہ تلے ہیں۔