“اس وقت مسلمان چل نہیں رہے بہہ رہے ہیں، بعض وجوہ کی بنا پر مسلمانوں نے دوڑنا سیکھا ہے یا بہنا، وہ چلنا جانتے ہی نہیں۔
جب قومیں اعتماد نفس سے محروم ہوجاتی ہیں یعنی انھیں عرفانِ نفس اور تعینِ ذات کا احساس نہیں رہتا تو پھر ان میں یمین و یسار کا تذبذب پیدا ہوتا ہے
اور ان کا دماغ خطرے ڈھالنے لگتا ہے تب وہ مفروضوں سے ہراساں ہوتی ہیں،
قوموں کی معنوی زندگی کا انحصار تعداد پر نہیں اس کا مدار استقامت و ایمان اور سیرت و عمل پر ہے۔”
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ
یوں کہا جاتا ہے کہ اتفاق میں برکت ہوتی ہے قوم کا وجود اتفاق قائم ہوتا ہے . اور دنیا کی مضبوط قوم جس پاس اللہ کی کتاب موجود ہو
اللہ کا عطاء کردہ رہبر اور اس رہبر کی راہنمائیاں جنہیں کفار بھی نہ جھٹلا سکے .
اسکے باوجود من حیث ء القوم مسلم امہ ذلت کے آخری درجے پر کیوں ہے .
صرف اس لیے کہ جب کوئی معبود سے رابط ہٹا کر
غافل عبد کو اپنا دیوتا بناتا ہے
میرا ناقص خیال ہے پھر اللہ کو غیرت آتی ہے اور جب
اللہ کو غیرت آتی ہے وہ نام نہاد مسلم چکنا چور ہو جاتا ہے جو موجودہ دور نظر آ رہا ہے
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے طارق ء قرآں ہو کر
یوں ہی سمجھ لیں کہ مسلمان صرف نام کی حد تک محدود ہو گئے ہیں ہر وقت بس بے خودی مدہوش خیال کرتے ہیں
اللہ ہے لیکن تحقیق سے اس قدر عاری ہیں کہ اللہ عز و جل ہمارا رابطہ مکمل کٹ چکا ہے
دنیاوی حرص میں دیوانے اور مجنوں بن کر ہم سست نہیں
بلکہ سستے ضمیر ہو چکے ہیں
کیا یہ المیہ نہیں ہے اس قدر سستے کہ چند روپیوں
کے لیے ہم خود کشی کرتے ہیں
اپنے جسم کے ساتھ بم چسپا کر لیتے ہیں اور انسانیت کے قاتل بن جاتے ہیں .. المیہ تو یہی ہے
دین کو کئی مسلک میں بدل صرف سستی شہرت کےلیے
اپنے ضمیر فروخت کر دیے . ہم حور کا خواب دیکھتے ہیں لیکن
ہمارا وجود جنم کے قابل بھی نہیں
اگر ہر بشر اپنے عمل پر توجہ دے اس دور کی یہ سب سے بڑی حقیقت ہے ہم مسلمان سست نہیں بہت سستے ہیں جو کہیں بھی نیلام ہو جاتے ہیں .