اے ایچ آزاد
محکمہ جنگلات آزاد کشمیر کی جانب سے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے شجر کاری مہم جاری ہے۔ آئے روز بیانات کی حد تک درجنوں ، سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں پودے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ سابقہ روایات سے ہٹ کر اس بار سول سوسائٹی،سیکورٹی فورسز، تعلیمی اداروں سمیت نجی و سرکاری محکموں کو بھی اس مہم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ آج سے تقریباً ایک ماہ قبل دارالحکومت کے صحافیوں نے بھی اس مہم میں حصہ لیا اور محکمہ جنگلات کی جانب سے مختص کردہ اراضی پر پودے لگائے گئے۔
1947ء میں تقسیم کشمیر سے لے کر آج تک محکمہ جنگلات آزاد کشمیر سالانہ کروڑوں پودے لگاتا چلا آ رہا ہے مگر نتائج اس کے برعکس ہیں۔1947ء میں آزاد کشمیر کے کل رقبہ کے 47فیصد حصہ پر جنگلات تھے جو آج کم ہو کرصرف 11فیصد رہ گئے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں آزاد کشمیر کے کل جنگلات کا 60فیصد وادی نیلم میں جبکہ فاروڈ کہوٹہ ، ہٹیاں بالا اور بھمبر میں 30فیصد اور دیگر اضلاع میں 10فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں۔
ڈوگرہ دور حکومت میں جنگلات کی حفاظت کیلئے سخت قوانین لاگو تھے۔کسی بھی شخص کو کلہاڑی لے کر جنگل میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ڈوگرہ سے غیروں کے سہارے آزادی لینے والے ان ریاستی وسائل کی حفاظت نہ کر سکے اور نہ ہی اپنے لاگو کردہ قوانین پر عمل پیرا ہو سکے۔ ریاست میں اگرچہ جنگلات کی حفاظت کے لاگو قوانین ڈوگرہ دور کے قانون سے اخذ کیے گئے ہیں مگر حرام خوری کے دلدادہ حکمران اور ملازمین خود اس کی تباہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔جنگلات کی حفاظت کیلئے تعینات سفارشی فاریسٹ گارڈز، فاریسٹر، رینج آفیسرز ،بلاک آفیسر، ڈی ایف اوزسے لے کر سیکرٹری تک تمام غریبوں کا خون پی رہے ہیں اور آج تک کسی نے ڈکار بھی نہیں ماری۔
فاریسٹ گارڈ فی درخت کی بولی لگاتا ہے۔ غریب شہری سے بھاری رقم وصول کر کے آدھی رقم خود اور آدھی رقم آفیسر بالا تک پہنچا دی جاتی ہے ۔آفیسر بالا اپنا حصہ الگ کر کے باقی رقم آگے پہنچا دیتا ہے اور اس طرح یہ رقم سیکرٹری تک جا پہنچتی ہے۔ وزیر موصوف اپنے چہیتوں کو نوازنے کیلئے چٹ لکھ کر کسی بھی آفیسر کے پاس بھیج دیتے ہیں اور یوں وہ بھی اس کار خیر میں شامل رہتے ہیں۔ کسی کو سیاسی رشوت دینی ہو تو اسی رقم سے ادا کی جاتی ہے۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کیلئے بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے اور یوں شہریوں سے وصول کیے گئے کروڑوں روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ کرپشن نہ کی جائے اور عوام سے معقول معاوضہ لے کر اسے درخت کاٹنے دیا جائے تو محکمہ جنگلات سے ریاست کا پورا بجٹ حاصل کیا جا سکتا ہے مگر خون پینے والے کبھی بھلائی کا نہیں سوچتے انہیں تو صرف اپنے غلیظ جسموں کیلئے ایندھن سے غرض ہوتی ہے۔
محکمہ جنگلات سالانہ شجر کاری پر کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے مگر ہر سال شجر کاری ناکام رہتی ہے۔ ڈیڑھ ماہ قبل صحافیوں کی ٹیم نے جس جگہ پودے لگائے اسی جگہ پر گزشتہ برس بھی پودے لگائے گئے تھے مگر وہاں صرف شجر کاری کے آثار کے علاوہ کوئی بھی شے موجود نہیں تھی۔ سالانہ ان ہی جگہوں پر شجر کاری تو کر دی جاتی ہے مگر اس کے بعد دوبارہ اسے دیکھا نہیں جاتا نیا سال شروع ہونے پر پھر سے دوبارہ ان ہی جگہوں پر پودے زمین برد کر دیئے جاتے ہیں۔فوٹو سیشن اور صرف فوٹو سیشن سے شجر کاری نہیں ہو سکتی۔ موجودہ سیکرٹری جنگلات بھی اس فوٹو سیشن شجر کاری کے دلدادہ ہیں۔محکمہ کی کوئی کل تو سیدھی نہیں مگر موصوف تعلیمی اداروں اور دیگر محکموں کے دفاتر پر چھاپے مار کر سستی شہرت حاصل کرنے کی کئی بار کوششیں کر چکے ہیں اور اگر فوٹو سیشن کے شوقین آفیسر ہونگے تو پھر خیر کی توقع بے سود ہے۔
ریاست کشمیر کو قدرت نے بے پناہ حسن سے نوازا ہے۔ بلند و بالا پہاڑی سلسلوں پر ہزار ہاء قسم کے نایاب درختوں کے جنگلات حکومتی غفلت سے ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور محکمہ جنگلات صرف چیڑھ کے درخت لے کر بیٹھا ہوا ہے۔ وادی نیلم کے پہاڑوں پر پائے جانے والے تاریخی و ثقافتی ورثے کے حامل’’ بھوج پتر‘‘ کے جنگلات ماتمی گیت گا رہے ہیں مگر محکمہ کے کانوں تک ان کی آواز نہیں پہنچی۔بھوج پتر کے جنگلات بغیر بیج کے پیدا ہوتے ہیں اور اس کی پیوند کاری بھی نہیں ہوتی۔مصنوعی طریقہ سے اسے اگانا بھی ممکن نہیں۔ یہ درخت انتہائی سرد علاقے جہاں 7 سے 9ماہ تک برف رہتی ہے میں پائے جاتے ہیں۔ شاردہ سے آگے پہاڑوں پر ان درختوں کے وسیع جنگلات تھے اور اسی وجہ سے شاردہ میں یونیورسٹی قائم کی گئی کیونکہ ان درختوں کی کھال کاغذ کا کام سرانجام دیتی تھی۔وادی نیلم اور استور کو الگ کرنے والے درہ شونٹھر میں اس کے گھنے جنگلات تھے مگر اب بدستور معدومی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان جنگلات کو مقامی افراد سے زیادہ بکروالوں نے نقصان پہنچایا۔اس درخت کی شاخیں بکریاں نوچ لیں تو یہ سوکھ کر مردہ ہو جاتا ہے۔محکمہ جنگلات کروڑوں روپے مصنوعی شجر کاری پر خرچ کرنے کے بجائے اگر 2واچر تعینات کر دے تو 8کلوٹر میٹر کے علاقہ تک پھیلے ان درختوں کو پھر سے گھنے جنگل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔بڑے درختوں کی جڑوں سے اگنے والے نوخیز پودوں کو جانوروں سے محفوظ کر کے تناور درخت بنایا جا سکتا ہے۔
محکمہ جنگلات کو چاہیے کہ جنگلات کی حفاظت کیلئے فاریسٹ قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے اسے مزید سخت بنائے۔ سالانہ کروڑوں روپے مصنوعی شجر کاری پر ضائع کرنے کے بجائے کلوژرز قائم کیے جائیں تا کہ جو پودے لگائے جائیں ان کی حفاظت بھی ہو سکے۔ جتنے اخراجات سالانہ شجر کاری پر کیے جاتے ہیں ویہی اخراجات اگر کلوژرز پر کیے جائیں تو آئندہ 20برس تک جنگلات کے تمام سفید رقبے پر درخت اگائے جا سکتے ہیں۔ شجر کاری محض فراڈ اور لوٹ مار کا ذریعہ ہے۔