کشمیر انٹرنیشنل پیس سوسائٹی نے برطانیہ کے شہر باٹلے میں16مارچ2016 کو ٌ معاہدہ امرتسر۔ ایک جائزہٌ کے عنوان سے ایک علمی و تربیتی مباحثہ کا انعقاد کیا جسکی میزبانی سماجی رہنماء جناب فیاض رشید نے کی۔ اس مباحثہ کا مقصد حالیہ مہینوں میں ریاست جموں و کشمیر کے مختلف سیاسی گروہوں اور افرادمیں معاہدہ امرتسر کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور یا کم کرنے کے لئے تاریخی تناظر میں اس معاہدہ کے مثبت و منفی پہلووں کا جائزہ لینا تھا۔اس تاریخی مباحثہ میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ معروف دانشور اور جموں کشمیر پی این پی کے سابق سربراہ پروفیسر نذیر حق نازش، تجزیہ و کالم نگار پروفیسر نذیر تبسم، قوم پرست تحریک کے قومی رہنماء شوکت مقبول بٹ، دانشور و مصنف شمس رحمان ،شعبہ ابلاغ سے اسد ضیاء حسن، جموں کشمیر پی این پی (برطانیہ) کے سربراہ انعام الحق، جموں کشمیر نیپ کے رہنما مسعود اقبال میر ، قاسم اعوان ، راقم( شفقت راجہ) اور دیگر نے شرکت کی جبکہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد کشمیر منظور حسین گیلانی، سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر ہائی کورٹ عبد المجید ملک،مظفرآباد سے دانشور و مصنف پروفیسر مشتاق خان، جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی صدر اور ترقی پسند رہنماء پروفیسر خلیق خان اور جموں کشمیر پینٹھر پارٹی کے سربراہ اور انسانی حقوق کے معروف علمبردار پروفیسر بھیم سنگھ کے علاوہ لبریشن فرنٹ کے توقیر گیلانی اور صابر گل نے بذریعہ ٹیلیفون اپنا موقف بیان کیا۔ مباحثہ کا آغاز میں ( شفقت راجہ) نے کرتے ہوئے کہا کہ اس سنجیدہ محفل کے کوئی سیاسی عزائم نہیں بلکہ خالصتاٌ علمی اور تربیتی نشست ہے اور ہم جناب فیاض رشید کے مشکور ہیں کہ انہوں نے اس اہم موضوع پر ایک سنجیدہ بحث کیلئے ماحول اور موقع فراہم کیا۔ اس موضوع پر میری مختصررائے یہی ہے کہ معاہدہ امرتسر(1846 ) موجودہ زمانے میں سمجھی جانے والی خامیوں کے باوجود ہماری متحدہ ریاست جموں کشمیر لداخ و تبت ہاء کی بنیاد ہے۔ جنوری1846کی انگریز اور پنجاب خالصہ کی جنگ میں پنجاب کی شکست پر ایک جنگی تاوان عائد ہوااور مالی مشکلات کے پیش نظر پنجاب دربار نے معاہدہ لاہور (۹ مارچ) میں اپنے زیر حکومت کچھ علاقوں( بشمول کشمیر، ہزارہ اور ملحقہ کوہستانی خطہ) کو انگریز بہادر ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپرد کر دیا ۔ جموں کے حکمران گلاب سنگھ نے تاوان جنگ کی ادائیگی کی حامی بھر لی اور جموں کے قریبی علاقے تھوڑی رد وبدل کیساتھ معاہدہ امرتسر ( 16مارچ 1846) کے ذریعے جموں ریاست میں شامل کر دئے گئے اور یوں ایک متحدہ ریاست جموں کشمیر و تبت ہاء کی تشکیل ہوئی جسے اس وقت کی عالمی طاقت برطانیہ نے اسی معاہدہ کا حصہ ہوتے ہوئے تسلیم کیا۔ معاہدہ امرتسر کی حیثیت ہمارے گھر (ریاست جموں کشمیر) کی
بنیاد ہے اور اس گھر کے ہی بعض افراد جانے انجانے میں ا سکی بنیاد پر ذاتی وجوہات کی بنا پر حملہ آور ہو کر کمزور کررہے ہیں۔ اس معاہدہ کے ذریعے ریاست کے قیام کے بعد جو بھی خیروشر ہوا وہ ریاست کا اندرونی معاملہ اور الگ بحث ہے کیونکہ وہ شخصی نظام اب قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ معاہدہ امرتسر پر ریاستی عوام اور خصوصاٌ پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر کے مختلف سیاسی اور سماجی گروہوں کے درمیان جاری متنازعہ بحث کو قابو کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ریاست کے مختلف الخیال مگر تاریخ و سیاست پر گرفت رکھنے والے دانشور اورماہرین اس معاہدہ کی حیثیت، اہمیت اور اسکے مثبت و منفی پہلووں پر تاریخی تناظر میں کھل کررائے زنی کریں۔
دانشور و مصنف جناب شمس رحمن صاحب نے بحث میں اپنا نقظہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ معاہدہ امر تسر کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم کے زمانے تک انکے ذہن میں بھی معاہدہ امرتسر کا تصور غیر مسلموں کے ہاتھوں کشمیر کے مسلمانوں کی خرید و فروخت تک محدود تھا لیکن پھر کچھ ایسے سیاسی واقعات پیش آئے کہ ذہن میں سوال ابھرتے گئے اور میں(شمس رحمان) مختلف کتابوں کی ورق گردانی کرتا گیا اور ریاست کے خد و خال نمایاں ہوئے تومعلوم ہوا کہ صرف کشمیر ہی ایک ریاست نہیں بلکہ اس میں دیگر اکائیاں بھی شامل ہیں جنکی اپنی اپنی شناخت بھی ہے اور اگر معاہدہ امرتسر نہ ہوتا تو متحدہ ریاست جموں و کشمیر بھی نہ ہوتی۔ معاہدہ امرتسر میں پیسوں کا جو لین دین ہے اس کا پس منظر جنگ اور تاوان جنگ ہے۔ اس زمانے میں یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اور یہی اس وقت کا رائج دستور ہوا کرتا تھا
جس میں ریاستوں اورانکے حکمرانوں کے درمیان مفادات کی کشمکش، جنگ اور تاوان جنگ معمول تھا اور ایسے ہی ایک حادثے میں ہماری ریاست کی تشکیل ہوئی۔ لہذا معاہدہ امرتسر کو کسی بھی زاویے سے دیکھنے کے بعد بھی نتیجہ یہی نکلتاہے کہ ریاست جموں کشمیر کی بنیاد دراصل معاہدہ امرتسر ہی ہے اور یوں 16 مارچ 1846 تشکیل ریاست کا دن بن جاتا ہے۔ معاہدہ امرتسر ہماری متحدہ ریاستی اکائی کی قانونی بنیاد ہے اور اس کے بعد ریاست کے اندر ہونے والے سارے واقعات ایک ارتقائی عمل کا حصہ ہیں تاہم آج تک اسی جغرافیائی ریاست کی بحالی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ڈوگرہ دور کا نظام موجودہ نظام کی طرح خوبی و خامی کا مرکب ہے تاہم اس آخری دور کو ایک لحاظ سے آج کے نظام سے بہتر قرار دیا جا سکتا ہے کہ ریاستی امور پر فیصلوں کا اختیار مقامی حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھا جو آج ریاست کے دونوں منقسم حصوں میں نہیں ہے۔
بائیں بازو کے سیاسی رہنماء اور دانشور پروفیسر نذیر نازش صاحب نے بحث میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا کہ آج کی یہ محفل اس لئے بھی اہم ہے کہ معاہدہ امرتسر پر جاری موجودہ بحثوں میں ابہام پر اس موضوع پر ایسا سنجیدہ مباحثہ وقت کی ضرورت تھی جس کیلئے ہم منتظمین کے مشکور ہیں۔ انگریز،سکھ جنگ میں انگریزوں کی فتح کے بعد طے پانے والا16 مارچ 1846 کامعاہدہ امرتسر ازخود معاہدہ لاہور 9 مارچ1846 ہی کا دوسرا حصہ ہے کہ جس میں سلطنت پنجاب پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ اس دور میں پوری دنیا میں مروجہ اصول کے مطابق تاوان جنگ کا اطلاق ہوا تھا۔ ایسے معاہدوں نا صرف تاوان جنگ بلکہ ایسی شرائط کا اطلاق بھی ہوا کرتا تھا کہ مفتوح کو نشان عبرت بنا دیا جائے تاکہ ایسا عمل پھر نہ دہرایا جا سکے۔ پنجاب دربار نے معاشی دیوالیہ ہونے کے باعث تاوان جنگ کے بدلے اپنے زیر حکومت کشمیر ہزارہ اور ملحقہ پہاڑی علاقوں کو انگریزوں کی تحویل میں دے دیا ۔ پھر انگریزوں نے ان علاقوں میں سے یہ شمالی خطہ کشمیر ہزارہ وغیرہ تاوان جنگ کی رقم سے75 لاکھ روپیہ کی ادائیگی پر رضامندی کے عوض جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا جو پنجاب دربار کے زیر نگین تھا لیکن اس جنگ میں وہ غیر جانبدار رہا اور اب معاہدہ امرتسر میں انگریزوں کی طرف سے ریاستی تحفظ و سلامتی کی ضمانت کے بعد اس نے انگریزوں کی حاکمیت اعلیٰ کو بھی قبول کر لیا۔ تاوان جنگ یا اسکے بدلے علاقوں کا تبادلہ اس زمانے کے رواج کا حصہ تھا اور یہی عمل پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کیساتھ بھی اپنایا گیا تھا۔ اس زمانے میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور تمام نظام حکومت بلا تفریق مذہب و علاقہ صرف حکمران طبقات کے مرہون منت ہوا کرتا تھا۔ معاہدہ امرتسر کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں جموں اور کشمیر کے دو الگ الگ خطوں کو ملا کر جدید متحدہ ریاست کی تشکیل ہوئی ، وہ ایک متحدہ و مشترکہ ریاستی شناخت میں تبدیل ہو گئے اور اس ریاست جموں کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا۔ کسی بھی تعصب کی وجہ سے انفرادی طور پر مہاراجہ گلاب سنگھ کی ریاستی حکمران کی حیثیت سے مخالفت اسلئے بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہی حیثیت اس دور میں مختلف ریاستوں کے ہندو اور مسلمان حکمرانوں کی تھی۔ وہ مطلق العنان ملوکیت کا نظام حکومت تھا جس کے خلاف سیاسی اور معاشی حقوق کی تحرکیں بھی چلتی رہیں تاہم انہوں نے کبھی اس ریاست کی جغرافیائی وحدت کی مخالفت نہیں کی۔ مطلق العنان نظام حکومت کے خلاف تحریکوں ہی کا نتیجہ تھا کہ پہلے باشندہ ریاست قانون اور پھر ریاستی اسمبلی پرجا سبھا کا قیام ہوا اور عوامی نمائندوں کو شریک نظام بنایا گیا۔ معاہدہ امرتسر 1846سے لیکر 1947تک سیاسی بیداری کی تحریکوں نے کبھی بھی اس طرح ریاست کی جغرافیائی وحدت کو چیلنج نہیں کیا جس طرح آج 2016 میں اس معاہدہ امرتسرپر سوالیہ نشان لگا کر اس وحدت کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ کشمیر کی ہزار ہاہ سالہ تاریخ کو جواز بناتے ہیں، کیا وہ 1846 سے پہلے کی کسی ریاست کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟ یقیناٌ نہیں۔ ایک اور ابہام بھی کثرت سے پایا جاتا ہے کہ انڈین انڈیپنڈنٹس ایکٹ 1947 کے مطابق برطانوی راج کے خاتمے پرتمام معاہدات کیساتھ معاہدہ امرتسر بھی ختم ہو گیا۔ یہ سوچ بھی ریاست کی سالمیت کے خلاف ہے۔ مذکورہ ایکٹ کے مطابق دراصل جن تین امور یعنی دفاع، خارجہ اور مواصلات پر برطانوی راج کو اختیار حاصل تھا وہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور ریاست کی خودمختاری کیساتھ وہ تمام اختیارات یعنی مکمل اقتدار اعلیٰ بھی ریاست کو حاصل ہو جاتاہے۔ جون 1947 میں لارڈ ماونٹ بیٹن نے ریاستی حکمرانوں کے ایک اجلاس میں واضح کر دیا تھا کہ انڈیپنڈنس ایکٹ پر عمل درآمد کے بعد ریاستیں آزاد ہو جائیں گی تاہم ان کیلئے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنا مشکل ہو گا لہذا بہتر ہو گا کہ وہ کسی ایک ڈومینین کیساتھ الحاق کر لیں لیکن ریاست جموں کشمیر کے حکمران نے تقسیم ہند سے بعد تک بھی کسی سے الحاق نہیں کیا تھا۔ میرے (نذیرنازش) موقف کا حاصل یہی ہے کہ معاہدہ امرتسر ریاستی عوام کو ایک جغرافیائی سالمیت اور ریاست کا تصور دیتا ہے۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ معاہدہ امرتسر سے ہی تشکیل پانے والی ریاست میں رائج شخصی نظام حکومت تھا جس کے خلاف عوامی حقوق کی جدوجہد جاری رہی جس کے نتیجے میں عوام کو شہریت اور شناخت حاصل ہوئی تھی۔ ہم عوامی حقوق اور حقیقی آزادی کیلئے کوشاں ہیں تو یقیناٌ ڈوگرہ راج کا مطلق العنان جابرانہ نظام اور اس بالا دست طبقے کے شخصی راج کی حمایت کبھی نہیں کرتے جس کے خلاف عوامی حقوق کی آواز اس دور میں بھی بلند ہوئی اور تاحال جاری ہے تاہم ریاست کی تشکیل میں معاہدہ امرتسر کی بنیادی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
تجزیہ کار و کالم نگار پروفیسر نذیر تبسم صاحب نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ریاست اور اسکی اکائیوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنا موقف بیان کیا کہ انگریز سکھ جنگ میں خالصہ فوج کو شکست کے بعد تاوان جنگ مقرر کیا گیا جس کے بدلے معاہدہ لاہور کے تحت کشمیر ہزارہ کوہستانی علاقے پہلے انگریز سرکار کو اورپھر معاہدہ امرتسر کے مطابق 75 لاکھ تاوان جنگ کی ادائیگی کے نتیجے میں جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دئے گئے۔ لہذا معاہدہ امرتسر کو خرید و فروخت یا بیعنامہ کہنا غلط ہے کیونکہ ہماری ریاست کا قیام اسی معاہدہ کے تحت عمل میں آیا تھا۔ ریاست کے اندر جو سیاسی تحرکیں ابھریں وہ نظام کیخلاف عوامی حقوق کیلئے تھیں جن کے نتیجے میں وہ نظام بھی تبدیل ہو رہا تھا لیکن آخرکار ہماری سیاسی قیادت نیشنل کانگرس اور مسلم لیگ کی نمائندہ بن گئی اور نتیجے میں ہمیں تقسیم اور مسئلہ کشمیر ملا جسکی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں اب وقت کا تقاضا ہے کہ منقسم ریاست کے ہر حصے سے عوامی حقوق کیلئے آواز بلند کی جائے۔
پی این پی کے رہنما انعام الحق صاحب کی نظر میں کشمیر کی تاریخ بہت پرانی ہے تاہم معاہدہ امرتسر کے ذریعے جدید متحدہ ریاست جموں کشمیر کا قیام تو ہو گیا لیکن نظام حکومت شخصی اور جابرانہ ہی رہا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اسے خرید و فروخت اور بیعنامہ امرتسر بھی کہتے ہیں۔ معاہدہ امرتسر اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن ہمیں اپنے آج اور آنے والے کل پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اگر اس دور کے نظام حکومت کیخلاف یہ نقطہ چینی کی جاتی ہے کہ گلاب سنگھ نے پیسے دیکر اقتدار خریدا تو ہمارے نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران آج بھی لاڑکانہ اور لاہور جیسے درباروں میں پیسے دیکر اقتدار خریدتے ہیں۔ لہذا ہم اس سابقہ دور کیساتھ موجودہ دور کے نظام حکومت کی بھی مذمت کرتے ہیں۔
قوم پرست رہنما اور مقبول بٹ شہید کے فرزند جناب شوکت مقبول بٹ نے بحث میں اپنا موقف یوں بیان کیا کہ معاہدہ امرتسر ریاست جموں کشمیر کے قیام میں تاریخی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہماری ریاست کو ایک قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ سیاسی ارتقاء کے مراحل میں تحریکیں اور عوامی حقوق کے مطالبات اس نظام حکومت سے متعلقہ ہیں جن کو بنیاد بناتے ہوئے ریاست کے اس قانونی وجود کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔1846سے لیکر1947کے عرصہ کو ریاست کی تشکیل، استحکام اور سیاسی ارتقاء کا دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھی اسی ریاست کو تسلیم کیا گیا ہے جس کا قیام معاہدہ امرتسر سے ہوا تھا۔ ہمیں معاہدہ امرتسر سے پہلے ایسا کوئی معاہدہ یا دستاویز نہیں ملتے جو ریاست کی جغرافیائی شناخت کی نشاندھی کر سکے لہذا اسی معاہدہ کی وجہ سے متحدہ ریاست جموں کشمیر کی قانونی شناخت بھی میسر آئی جو آج متنازعہ و منقسم ہے۔ موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ ریاست کے منتشر سیاسی گروہ اتحاد و اتفاق سے ریاست کی آزادی و خودمختاری کی جدوجہد کا حصہ بنیں تاکہ ہم بھی دنیا کی آزاد قوموں میں شامل ہو سکیں۔
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد کشمیر جناب منظور حسین گیلانی نے معاہدہ امرتسر کے مثبت و منفی پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سکھ اور انگریز جنگ کے بعد سب کچھ منصوبہ بندی سے ہوا جس کے پہلے مرحلے میں ۹ مارچ کے معاہدہ لاہور کے تحت کشمیر و ہزارہ وغیرہ کو انگریز سرکار کے سپرد اور دوسرے مرحلے میں16 مارچ1846 کے معاہدہ امرتسر کے مطابق انہی علاقوں کو جموں و لداخ کے حکمران گلاب سنگھ کو سونپ دیا گیا اور یوں معاہدہ امرتسر کی وجہ سے ایک متحدہ ریاست جموں کشمیر و لداخ کا قیام ہوا جس سے پہلے ان علاقوں پر مشتمل ایسی کوئی متحدہ ریاستی حیثیت نہیں تھی۔ تاہم اس ریاست کی اکائیوں کے عوام اس معاہدہ سے متفق نہیں تھے اور انہوں نے مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے مزاحمت بھی کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ میں توسیع پسندی اور بزور قوت ریاستوں کی تشکیل ہوتی رہی ہے تاہم اس ریاست کی اکائیوں کا یہ اتحاد اور ریاستی وحدت غیر فطری عمل تھا اور مستقبل میں بھی اس وحدت کی بحالی کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ان اکائیوں نے کبھی اس وحدت کو قبول ہی نہیں کیا۔ ایک طرف جموں، کشمیر و لداخ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں اور انکی اپنی شناخت موجود ہے جسکی وجہ سے وہ الگ الگ انتظامی ڈھانچے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف آزاد کشمیر کی اپنی شناخت بن چکی ہے اور صوبہ جموں اور صوبہ کشمیر کا حصہ ہوتے ہوئے بھی لوگ اب آزاد کشمیر کو اپنا مشترکہ خطہ اور شناخت مانتے ہیں۔ اسی طرح جب سے شمالی علاقوں کو گلگت بلتستان کی شناخت ملی تو وہ لوگ بھی مطمئن ہو چکے ہیں۔ لہذا موجودہ حالات کے تناظر میں ویسی ہی ریاستی وحدت کی بحالی ایک مشکل ترین عمل ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ بیرون ملک ہمارے لوگ ایسے مباحثہ اور مکالمہ جیسی مثبت سرگرمیوں کا انعقاد کرتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر ہائی کورٹ جناب عبدالمجید ملک نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جدید متحدہ ریاست جموں کشمیر کی تشکیل میں معاہدہ امرتسر کا کلیدی اور بنیادی کردار ہے تاہم کشمیر کے عوام نے اسکی بھرپور مزاحمت بھی کی تھی کیونکہ جنگی تاوان کے بدلے صوبہ کشمیر کا یہ تبادلہ عوامی امنگوں کے خلاف اسی معاہدہ کے تحت کیا گیا تھا ۔ قانون آزادی ہند میں تمام معاہدوں کے خاتمے کے بعد ریاست کا نیا وجود سامنے آتا ہے جسے ہری سنگھ کی ریاست کہا جاتا ہے اور اب تک وہی متنازعہ و مسلمہ ہے جسکی آزادی کی ہم بات کرتے ہیں۔ کشمیری عوام نے اس وقت کے معاہدے کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی بعد میں ہونے والے شملہ یا تاشقندجیسے معاہدوں کو تسلیم کرتے ہیں جن میں انکی مرضی و منشاء شامل نہیں ہے۔
مظفرآباد سے مصنف اور ریاستی تاریخ پر خاصا علم رکھنے والے پروفیسر مشتاق خان صاحب نے مباحثہ میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا کہ جنگ کے بعد جنگی تاوان یا اسکے بدلے علاقوں کا تبادلہ اس زمانے کے مطابق جائز تصور کیا جاتا تھا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ گلاب سنگھ نے وہ رقم قسطوں میں ایمن آباد کے ساہوکاروں سے قرض لیکر اور یہاں کے مقامی جاگیرداروں کی مدد سے ادا کی۔ ایسی ہی نازک صورت حال میں متحدہ ریاست جموں و کشمیر جیسے ملک کا قیام ہوا جس کی بنیاد معاہدہ امرتسر ہے۔ موجودہ دور میں اس معاہدہ اور اسکے مندرجات اور طریقہ کار پر تو اعتراض کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی خطوں پر مشتمل ایسی کوئی متحدہ جغرافیائی اور مسلمہ ریاست تاریخ میں پہلے نظر نہیں آتی۔ 1846 میں ریاستی قیام سے 1947 تک حالات کے مطابق ریاستی نظام میں تبدیلیاں واضح دکھائی دیتی ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت ریاست کا پڑھا لکھا اور متوسط رویہ رکھنے والاحکمران ہری سنگھ ریاست کی خودمختاری کا حامی تھا لیکن حالات موافق نہ رہ سکے اور ریاست تقسیم ہونے کیساتھ متنازعہ بھی ہو گئی اور یہی صورت آج بھی موجود ہے۔
جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کے صدر اور ترقی پسند رہنما پروفیسر خلیق خان صاحب نے اپنے موقف میں کہا کہ معاہدہ امرتسر کا جہاں منفی تاریک پہلو یہ ہے کہ اس دور کے برطانوی سامراج نے سامراجی چالوں اور مفادات کے تحت خطہ کشمیر کو عوامی خواہشات کے برعکس جموں کے حکمران راجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ کے تاوان جنگ میں فروخت کر دیا لیکن اس کا روشن اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ جموں اور کشمیر کے اشتراک سے ایک متحدہ ریاست کا قیام اور وجودکی بنیاد بھی یہی معاہدہ امرتسر ہے۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے شخصی اور جابرانہ نظام کو تو کسی طرح سراہا نہیں جا سکتا جس کے خلاف سیاسی تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں تاہم ریاست جموں کشمیر کی تشکیل اور استحکام کا کریڈٹ ان کو ضرور جاتا ہے ۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ جس جمہوری اور خودمختار ریاست کا مطالبہ اور جدوجہد ہم آج تک کر رہے ہیں اس کے ڈھانچے اور نقشے کا تصور بھی اسی معاہدہ امرتسر سے تشکیل پانے والی ریاست سے ملتا اور اس پر ہمارا کامل یقین بھی ہے۔میں (پروفیسر خلیق) ذاتی حیثیت سے ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ کے خودمختاری کے نقطہ نظر اور کوشش کو سراہتے ہوئے خیر مقدم کرتا ہوں جسے ہماری اس وقت کی قیادت نے مسترد کر کے غلطی کی تھی جسکی وجہ سے ہماری ریاست تقسیم اور متنازعہ ہو گئی اور ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاہدہ امرتسر ہماری ریاستی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (برطانیہ زون) کے صدر صابر گل صاحب کا ماننا ہے کہ معاہدہ امرتسر ایک تاریخی حقیقت اور 84471مربع میل رقبے پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کی بحالی کے مطالبے کا دستاویزی ثبوت ضرور ہے مگر اس معاہدہ کے غیر جمہوری اور غیر انسانی ہونے کی وجہ سے اس میں شامل فریقین کی توصیف درست عمل نہیں ہے۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ(آزادکشمیرزون) کے صدر جناب توقیر گیلانی کی ذاتی رائے کے مطابق معاہدہ امرتسر پر مختلف لوگوں کی مختلف تشریحات ہیں تاہم متحدہ ریاست جموں کشمیر کی تشکیل معاہدہ امرتسر ہی کی وجہ سے ہوئی۔ لوگوں میں اس معاہدہ کا ایک منفی پہلو انسانوں کی خرید و فروخت ہے جبکہ دوسرا پہلو ریاستی تشکیل کا بھی موجود ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں ایسے ہی بے شمار واقعات اور معاہدات موجود ہیں اور اس زمانے میں بادشاہ یا حکمران اپنی ریاستوں کی توسیع عوام کے لئے نہیں کرتے تھے اور جن علاقوں کو اپنی ریاست کا حصہ بناتے ان میں انسان ہی بستے تھے۔ اسی طرح گلاب سنگھ نے بھی انگریز سکھ جنگ کے بعد تاوان جنگ کے بدلے کشمیر کو جموں سے ملا کر ایک متحدہ ریاست بنائی جس میں عوامی فلاح ترجیح نہیں تھی۔ ہمیں ان واقعات کو اس زمانے کے مطابق ہی دیکھنا چاہئے۔ اسی ریاست پر جب ہم آج بھی اپنا دعویٰ کرتے ہیں تو گلاب سنگھ کو بانی ریاست کہنے میں بھی ہرج نہیں تاہم ہمارے سیاسی ماحول میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی روایت کا فقدان ہے۔ گلاب سنگھ سے ہری سنگھ تک بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا اور1947میں تو ہری سنگھ کا ریاست اور ریاستی عوام کے حوالے سے کردار ہماری اس وقت کی سیاسی قیادت سے بہتر تھا۔ ہمارے سماج میں تاریخی واقعات میں مبالغہ آرائی کا رجحان ہے جس میں حقائق مسخ ہو جاتے ہیں اور کم علمی میں ان پر بحث سیاسی کارکنوں کے درمیان تکرار کا باعث بنتی ہے ۔ تاریخی حقائق کو یکسو کرنے کا کام ہمارے دانشور اور تاریخ کے ماہر طبقے کا ہے۔ لہذا ایسے ہی علمی مباحث کا انعقاد ایک مثبت عمل اور صحت مند رجحان ہے ورنہ ہماری تحریکیں جمود کا شکار ہو جاتی ہیں اور پیچھے سیاسی نعرے ہی رہ جاتے ہیں۔
ترقی پسند تحریک اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے اور ماضی میں قوم پرست سیاست سے جڑے سید شوکت جعفری کے مطابق ماضی خود حال اور مستقبل کا تعین کرتا ہے لہذا جب بھی ہماری جدید جغرافیائی ریاست کی تاریخ کی بات ہو گی تو بات معاہدہ امرتسر پر ہی جا کررکے گی۔ ہم چاہتے ہوئے بھی اس سچائی سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہی معاہدہ ہماری اس ریاست کی ماں ہے ۔ ہم اس دور کے نظام حکومت پر تو ہر طرح کی تیراندازی کر سکتے ہیں لیکن ہمارا نشانہ ریاست کی روح معاہدہ امرتسر ہر گز نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے آج تک ہماری قومی شناخت اور قومی وقار وابستہ ہے۔
جموں سے پینتھر پارٹی کے سربراہ اور انسانی حقوق کے علمبردار پروفیسر بھیم سنگھ نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جن حالات میں بھی معاہدہ امرتسر طے ہوا تھالیکن وہ متحدہ ریاست جموں کشمیر کی بنیاد ضرور ہے۔ جس میں گلاب سنگھ نے اپنی ذہانت سے نا صرف ایک متحدہ ریاست کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا بلکہ اسے برطانوی سرکار سے تسلیم بھی کروایا۔ اگر معاہدہ امرتسر کو ہٹا دیا جائے تو جموں اور کشمیر الگ الگ خطے بن جاتے ہیں۔ موجودہ عالمی حالات میں جہاں ملکوں کو توڑ کر نئی ریاستیں بنائی جا رہی ہیں تو وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ریاست کی وحدت کو بچانے کیلئے مشترکہ کردار ادا کریں جو وحدت ہماری ریاست کے متنازعہ ہو جانے کے بعد بھی معاہدہ امرتسر ہی کی وجہ سے قائم ہے۔ میں(بھیم سنگھ) نے ماضی میں دو دفعہ یہ کوشش کی اور آزاد کشمیر کی قیادت کو یہاں بلایا جس میں سردار عبدالقیوم خان بھی شامل تھے اور وہ ایک مثبت پیش رفت ثابت ہوئی تھی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ریاست کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن کے خاتمے کیلئے کوشش کی جائے جس سے ریاستی عوام کو نقل و حمل اور ریاست میں کہیں بھی آباد ہونے کی مکمل آزادی دی جائے ۔ یوں تقسیم شدہ ریاستی عوام کو مل بیٹھنے کا موقع ملے گا اور مسئلہ کشمیر کے کسی پرامن حل کی طرف بھی بڑھا جا سکتا ہے۔
قارئین کرام ؛ معاہدہ امرتسر سے جڑی مختلف لوگوں کے درمیان جاری متنازعہ بحث اور ان کے درمیان پائے جانے والے ابہام کو کم کرنے کیلئے یہ علمی و تربیتی مباحثہ ایک کوشش تھی جس نے یہ تو واضح کر دیا کہ معاہدہ امرتسر ایک اہم ترین تاریخی حقیقت ہے اور ریاست کا قیام و نظام دو الگ الگ باب ہیں۔ لہذا اس معاہدہ کے تاریخی پس منظر، محرکات اور اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس علمی مباحثہ کے تمام شرکاء نے اس کے انعقاد پر فیاض رشید اور دیگر منتظمین کی کوشش کو سراہا اور مستقبل میں بھی مختلف الخیال لوگوں کیلئے ایسے مشترکہ اور سنجیدہ پلیٹ فارم کی فراہمی کو خوش آئند قرار دیا کہ جس کے ذریعے آگے چل کر مختلف سیاسی گروہوں کیلئے ایک مشترکہ ایجنڈے پر مل جل کر کام کرنے پر اتفاق ہو سکتا ہے لہذا ایسی سنجیدہ محفلوں کا انعقاد موجودہ وقت کی ضرورت ہے ۔
(رپورٹ: شفقت راجہ)