تحریر ثمینہ راجہ جموں کشمیر
ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے زیادہ خوبصورت اور سنہرا دن 18 فروری 1938 کا ہے کہ اس دن وادئ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ کے ایک گاؤں تریہگام میں ایک کسان غلام قادر بٹ کے گھر دہرتی کے اس عظیم بیٹے نے جنم لیا جس نے نہ صرف یہ کہ اپنی زندگی اور متاعِ جہان کو مادرِوطن کی آزادی کے مشن کے لیئے وقف کیئے رکھا بلکہ اسی آزادی کے حصول کی خاطر اپنی متاعِ جان بھی وطن پر نچھاور کر کے نہ صرف خود ابد آباد تک امر ہو گیا بلکہ دہرتی ماں پر چھائی ظلمتوں کے بیچ جانثارانِ وطن کے لیئے ایک ایسی تاباں و جاوداں مشعلِ راہ چھوڑ گیا جس کی روشنی ہمیشہ وطن کی آزادی، خودمختاری، یکجہتی اور خوشحالی کی منزل کی نشاندہی کرتی رہے گی ۔
وادئ گل کے مکینو ! میری آواز سنو
ظلم کی آگ پہ چھا جاؤ سمندر کی طرح
اور جُھلسے ہوئے ویران وطن پہ ہر سُو
برف کی طرح گرو، آگ بُجھا دو یارو ۔
بابائے قوم کے چھوٹے
بھائی کا نام غلام نبی بٹ تھا ۔ جب بابائے قوم کی عمر گیارہ سال ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئیں ۔ آپکے باپ نے دوسری شادی کر لی ۔ یوں آپ کے دو مزید بھائی منظور احمد بٹ اور ظہور احمد بٹ اور تین بہنیں پیدا ہوئیں ۔ قائدِ حریت حضرت مقبول بٹ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے ہی حاصل کی ۔ آپکے دورِطالبعلمی کا ایک واقعہ بہت اہم ہے اور اس کا ذکر کیئے بغیر آپکی شخصیت کا حقیقی عکس منعکس نہیں ہو سکتا ۔
بابائے قوم جن دنوں سکول میں پڑہتے تھے اس زمانے میں ایک عام روایت یہ تھی کہ تقریبات میں امیر اور اہلِ ثروت لوگ ایک طرف بیٹھتے تھے جبکہ غریب اور نادار لوگ ان سے بالکل الگ تھلگ دوسری طرف ۔ یہ عام رواج تھا اور تمام سرکاری اور نجی تقریبات میں اس ترتیب کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا ۔ ایک سال شہیدِ وفا حضرت مقبول بٹ شہید بھی ان طلباء میں شامل تھے جنہیں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر اپنا انعام وصول کرنا تھا ۔ رواج کے مطابق سکول کی سالانہ تقریبِ انعامات کے لیئے نشستیں اس طرح لگائی گئیں کہ امیر طلباء اور انکے والدین کے لیئے تقریب میں نشستیں ایک طرف مختص کی گئیں جبکہ غریب اور نادار طلباء اور انکے والدین کے لیئے تقریب میں نشستیں دوسری طرف لگائی گئیں ۔ مقبول بٹ بھی ان طلباء میں شامل تھے جنہیں سکول کی جانب سے انعام دیا جانا تھا ۔ دستور کے مطابق مقبول بٹ کی نشست بھی غریب اور نادار لوگوں کی طرف لگائی گئی ۔ مگر مقبول بٹ نے وہاں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنا انعام اس وقت تک وصول نہیں کریں گے جب تک تمام طلباء ایک ساتھ ایک طرف اور تمام والدین ایک ساتھ دوسری طرف نہیں بٹھائے جاتے ۔ مقبول بٹ کی یہ تجویز قبول کی گئی اور تقریبِ تقسیمِ انعامات میں تمام والدین کو سماجی مقام اور مرتبے سے قطع نظر ایک طرف بٹھایا گیا اور تمام طلباء کو ایک ساتھ دوسری طرف بٹھایا گیا ۔ اُس سال کے بعد گاؤں کے سکول میں ہمیشہ تقریبات میں قائدِکشمر کے تجویز کردہ انتظام کو ہی اپنایا گیا ۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائدِ انقلاب بچپن ہی سے سماجی اونچ نیچ اور امتیازی سلوک کے خلاف تھے اور اپنی بات اور اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے ۔
سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بابائے قوم نے سینٹ جوزف کالج بارہ مُولا میں داخلہ لیا ۔ خواجہ رفیق اپنی کتاب سفیرِحریت میں لکھتے ہیں کہ سینٹ جوزف کالج کے پرنسپل عیسائی پادری شنکس نے شہیدِکشمیر حضرت مقبول بٹ شہید کی سیاسی سرگرمیوں کو دیکھ کر ایک دفعہ کہا تھا کہ “یہ نوجوان اگر زندگی کی مشکلات سے عہدہ برا ہونے میں کامیاب ہو گیا تو ایک دن بہت بڑا آدمی بنے گا ۔ لیکن اس قسم کے لوگ اکثر سماج میں شدید ترین مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ۔ جس قسم کی آزادی یہ نوجوان چاہتے ہیں اُسکا حصول بہت مشکل ہے ۔ نتیجتاً یہ آزادی کی راہ میں قربان ہو جاتے ہیں”۔ اور قائدِ کشمیر کے ضمن میں فادر شنکس کی یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ۔
بابائےقوم حضرت مقبول بٹ شہید نے گریجویشن تک تعلیم بھارتی مقبوضہ وادئ کشمیر سے ہی حاصل کی ۔
بی اے کرنے کے بعد 1958 میں بابائے قوم ہجرت کر کے اپنے چچا کے ساتھ پاکستان آ گئے اور پشاور میں سکونت اختیار کی جہاں سے اردو ادب میں ماسٹرز کے علاوہ آپ نے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا ۔ 1961 میں آپ نے پشاور سے کشمیری مہاجرین کی نشست پر الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی ۔ 1961 میں ہی آپ نے اپنی ایک عزیزہ راجہ بیگم کے ساتھ شادی کی – جن کے بطن سے 1962 میں جاوید مقبول بٹ پیدا ہوئے ۔ 1963 میں آپ نے ذاکرہ بیگم کے ساتھ دوسری شادی کی ۔ 1964 میں پہلی اہلیہ کے بطن سے شوکت مقبول بٹ نے جنم لیا ۔ (آپ کے اس فرزند نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے عظیم باپ کے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے ۔ شوکت مقبول بٹ پرامن اور جمہوری جِدوجُہد کے ذریعے اپنے باپ کے خواب کی تکمیل کے لیئے سرگرمِ عمل ہیں ) ۔
اپریل 1965 میں آپ نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر قوم پرست سیاسی جماعت محاذ رائے شماری کی بنیاد رکھی ۔ 12 جولائی 1965 کو محاذ رائے شماری کا مسلح ونگ بنانے کے لیئے قرارداد پیش کی گئی مگر یہ قرارداد محاذ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اکثریت رائے سے مسترد کر دی گئی ۔ اس قرارداد کی ناکامی کے بعد 13 اگست 1965 کو آپ نے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر محاذ رائے شماری کے خفیہ مسلح ونگ این ایل ایف کی بنیاد رکھی – 1966 میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے دوسری بیگم کے بطن سے بیٹی لبنیٰ سے نوازا جو آپ کی تیسری اور آخری اولاد ہیں ۔
آپ این ایل ایف کو تشکیل دینے اور اس کا دائرہ کار بڑہانے کے لیئے 10 جون 1966 کے دن کچھ ساتھیوں کے ہمراہ جنگ بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چلے گئے جہاں آپ نے این ایل ایف کے لیئے تنظیم سازی اور تربیت کے کام کا آغاز کیا ۔ مگر بھارتی سیکورٹی فورسز کو قائدِکشمر کی سرگرمیوں کا علم ہو گیا اور انہوں نے آپ کے خفیہ ٹھکانے کو تلاش کر لیا ۔ 14 ستمبر 1966 کو سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس میں آپ کا ساتھی اورنگزیب شہید ہو گیا جبکہ کرائم برانچ سی آئی ڈی کا انسپکٹر امر چند بھی اس جھڑپ میں مارا گیا ۔ بابائے قوم کو دو ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا اور آپ کو سری نگر سنٹرل جیل میں قید کر کے آپ پر بغاوت اور امر چند کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا ۔ یہ مقدمہ انڈین پینل کوڈ کے دشمنی ایکٹ 1943 کے تحت قائم کیا گیا ۔ اگست 1968 میں کشمیر ہائیکورٹ نے آپ کو اس مقدمے میں سزائے موت سنائی ۔ آپ نے عدالت کے فیصلے کے بعد جج کو مخاطب کر کے کہا ” جج صاحب ! وہ رسی ابھی تیار نہیں ہوئی جو مقبول بٹ کے لیئے پھانسی کا پھندہ بن سکے” –
9 دسمبر 1968 کو آپ جیل کی دیواروں میں شگاف ڈال کر جیل سے فرار ہوئے اور برف پوش پہاڑوں کو عبور کر کے 23 دسمبر 1968 کو چھمب کے مقام سےآزادکشمیر میں داخل ہوئے ۔ مگر 25 دسمبر 1968 کو آپ کو گرفتار کر کے مظفرآباد کے بلیک فورٹ میں قید کر دیا گیا جہاں آپ پر بے پناہ تشدد کیا گیا ۔ تاہم محاذ رائے شماری، این ایل ایف اور این ایس ایف کے زبردست مظاہروں کے بعد آپ کو 8 مارچ 1969 کو رہا کر دیا گیا ۔ رہائی کے بعد آپ نے سیاسی سرگرمیوں پر تمام تر توجہ مرکوز کی اور نومبر 1969 میں آپ کو محاذ رائے شماری کا مرکزی صدر بنا دیا گیا ۔ مگر قائدِ انقلاب حضرت مقبول بٹ نے اپنی خفیہ عسکری سرگرمیوں کو ترک نہ کیا اور این ایل ایف کے لیئے رکنیت سازی اور تنظیم سازی کا کام جاری رکھا ۔ آپ الجیریا، فلسطین اور ویتنام کی تحاریکِ آزادی سے بہت متاثر تھے ۔ آپ نے این ایل ایف کے ممبران کی تربیت انہی تحاریک کے طرز پر شروع کی ۔
30 جنوری 1971 کو آپ سے تربیت حاصل کر کے دو نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے بھارت کا طیارہ اغواء کیا اور اسے لاہور لے آئے ۔ ہائی جیکروں نے بھارتی جیلوں میں قید این ایل ایف کے دو درجن کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا مگر بھارت نے اس مطالبے کو تسلیم نہ کیا چنانچہ مسافروں کو رہا کرنے کے بعد یکم فروری 1971 کو طیارے کو نذرِ آتش کر دیا گیا ۔ پاکستانی قوم نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کے اس اقدام کو بہت سراہا اور کھل کر آپکی حمایت کی ۔ آپ کے اس اقدام نے مسئلہ کشمیر کو نہ صرف نئی زندگی عطا کی بلکہ دنیا کے سامنے نہایت طاقتور انداز میں پیش بھی کیا ۔
آزادکشمیر میں ان دنوں سردار قیوم خان کی حکومت تھی ۔ سردار قیوم نے اپنے بھائی غفار خان کو بابائے قوم کے پاس یہ تجویز دے کے بھیجا کہ آپ اعلان کریں کہ یہ طیارہ المجاہد فورس کے گوریلوں نے اغواء کیا ہے ۔ اس کے بدلے میں آپ کو منہ مانگی دولت اور آزادکشمیر کے اقتدار میں حصہ دینے کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے اس سودا بازی کو ٹھکرا دیا ۔ حکومتِ پاکستان نے کوہاٹ میں آپ کے ساتھ مذاکرات کیئے اور آپ کو پاکستان کی شرائط کے مطابق کام کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کی گئی مگر آپ نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا ۔ چنانچہ حکومتِ پاکستان نے آپ کو سینکڑوں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا ۔ اور عجب کمال دیکھیئے کہ جس ایکٹ کے تحت آپ پر بھارت نے 1966 میں مقدمہ قائم کیا تھا اسی ایکٹ کے تحت پاکستان نے 1971 میں آپ پر اور این ایل ایف کے دیگر سینکڑوں کارکنان پر مقدمہ قائم کیا ۔ آپ پر پاکستان کی جیلوں میں جو تشدد اور مظالم ڈہائے گئے ان کی تفصیل لکھنے کے کیئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔
آپ اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف دسمبر 1971 میں مقدمے کی عدالتی کاروائی شروع کی گئی ۔ استغاثہ کی طرف سے 1984 گواہان پیش کیئے گئے جب کہ آپ کے دفاع میں 1942 گواہان پیش ہوئے ۔ مئی 1973 میں عدالت نے ہاشم قریشی کے علاوہ آپ سمیت تمام گرفتار شدگان کو بری کر دیا ۔ ہاشم قریشی کو چودہ سال قید کی سزا دی گئی ۔ اس مقدمے کے دوران جاری رکھے جانے والے تشدد، جبر اور پاکستان کی سازشوں کے باعث این ایل ایف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور محاذ رائے شماری کو بھی بہت بڑا دھچکہ لگا ۔ مئی 1973 میں رہا ہونے کے بعد مقبول بٹ نے محاذ رائے شماری اور این ایل ایف کو دوبارہ منظم کرنا شروع کیا ۔ رہائی کے بعد منگلا قلعہ میں وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کے ساتھ مذاکرات کیئے اور آپ کو پیشکش کی کہ آپ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں ۔ بھٹو نے آپ کو آزادکشمیر کی وزارتِ عظمیٰ دینے کا وعدہ کیا ۔ مگر جواب میں بابائے قوم نے فرمایا ” ہماری منزل آزادکشمیر کی وزارتِ عظمیٰ نہیں بلکہ کشمیر کی مکمل آزادی اور خودمختاری ہے” ۔ آپ نے بھٹو کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اعلان کیا کہ آپ عوام سے فیصلہ لیں گے ۔ چنانچہ محاذ رائے شماری نے 1975 کے انتخابات میں حصہ لیا ۔ مگر بھٹو نے فرشتے مقرر کر کے اپنے من پسند نتائج حاصل کیئے ۔ بابائے قوم نے آزادکشمیر اسمبلی کے 1975 کے انتخابات میں دو نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا مگر بھٹو نے نہ صرف آپ کو بلکہ محاذ کے تمام امیدواروں کو ہرا دیا اور اپنی مرضی کے نتائج مرتب کیئے ۔ آزادکشمیر کی سیاست سے مایوس ہو کر مئی 1976 میں بابائے قوم کچھ ساتھیوں کو کے کر پھر جنگ بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گئے ۔ مگر چند دن بعد ہی آپ کو گرفتار کر لیا گیا ۔ اور سابقہ مقدمے کی فائل دوبارہ کھول دی گئی ۔ ہائیکورٹ تو پہلے ہی آپکو سزائے موت دے چکی تھی، بھارتی سپریم کورٹ نے بھی 1978 میں آپکے سابقہ مقدمے میں ہائیکورٹ کی دی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا ۔ چنانچہ آپ کو تہاڑ جیل دہلی میں منتقل کر دیا گیا ۔ فروری 1984 کے پہلے ہفتے میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں چند کشمیریوں نے بھارتی قونصل خانے کے ایک کلرک رویندرا مہاترے کو اغوا کر کے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔ مگر تین دن بعد مہاترے کی لاش ملی ۔ اس اقدام کے بعد 11 فروری 1984 کو اس عظیم قائدِ حریت کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا ۔ کلو جلاد نے پھانسی کا پھندا کھینچا ۔ تختہ دار پر آپ کے آخری الفاظ تھے “میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا ۰۰۰۰۰” آپ کے جسدِ خاکی کو ورثاء کے حوالے کرنے کے بجائے جیل کے احاطے میں ہی دفن کر دیا گیا ۔ یوں آپ آج تک بھارت کی جیل میں قید اپنے وطن کی آزادی کے منتظر ہیں ۔
میں پچھلی قسط میں بابائے قوم حضرت مقبول بٹ کے حالاتِ زندگی کا ایک جائزہ پیش کر چکی ہوں ۔
اس قسط میں میرا موضوع گفتگو ہے ۔ ماہِ مقبول کے تقاضے اور کشمیری قوم پرست ۔
فروری کے مہینے کو بجا طور پر ماہِ مقبول کہا جاتا ہے ۔ اس کی تین وجوہات ہیں ۔
1 – اس مہینے کی 18 تاریخ مقبول بٹ شہید کی سالگرہ کا دن ہے ۔
2 – اس مہینے کی 11 تاریخ مقبول بٹ شہید کا یوم شہادت یے – اس دن مقبول بٹ نے شہادت کو گلے لگا کر آزادی کی منزل کی نشاندہی اس انداز میں کر دی کہ قابض ممالک اپنے تمام تر مالی وسائل، فوجی طاقت اور افرادی قوت کے باوجود ریاست جموں و کشمیر کی آزادی و خودمختاری کی اس منزل کو کشمیری عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں کر سکتے ۔
ایک دن میرے رقیبوں کو ندامت ہو گی
جب میری لاش کسی دار کی زینت ہو گی
میں نے جو راہِ طلب ڈھونڈھ کر اپنائی ہے
اِس کی منزل تو کسی روز قیامت ہو گی ۔
3 – اور یہ مہینہ دُنیا بھر میں کشمیری سیاسی کارکنان کے نزدیک عہدِوفا اور عزمِ استقامت کے حوالے سے سیاسی سرگرمیوں کی خاطر مقبول ترین مہینہ ہے ۔
ماہِ مقبول کی تیسری وجہ کی مقبولیت پہلی دو وجوہات کی بنیاد پر ہے ۔
اس مہینے میں کشمیری قوم پرست اور محبِ وطن سیاسی جماعتیں اور کارکنان سیاسی جلسے، جلوس اور سیمینار منعقد کر کے عوام کو بابائے قوم، شہیدِاعظم، قائدِکشمر حضرت محمد مقبول بٹ شہید کے حالاتِ زندگی، انکے افکار و کردار اور انکی قوم کی خاطر پیش کی جانے والی لازوال اور فقید المثال قربانیوں سے روشناس کرواتے ہیں ۔
اس مہینے میں تمام کشمیری سیاسی کارکنوں اور قائدین کے اندر ایک ولولہ اور ایک اُمنگ پیدا ہو جاتی ہے ۔ وطن کی آزادی کے حصول کی خاطر عہد و پیمان کیئے جاتے ہیں اور ہر سمت سے اعلانات سننے کو ملتے ہیں کہ مادرِوطن ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی، جغرافیائی یکجہتی اور کامل خودمختاری کے حصول کی خاطر بابائے قوم حضرت محمد مقبول بٹ شہید کے افکار کی روشنی میں جدوجہد جاری رکھی جائے گی اور جب تک ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کی منزل حاصل نہیں ہو جاتی ، چین سے نہیں بیٹھا جائے گا وغیرہ وغیرہ ۔
مگر سابقہ تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جیسے ہی فروری کا مہینہ ختم ہوتا ہے، سیاسی کارکنان کا جذبہ بھی ماند پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے معمولات کی طرف واپس لوٹ جاتی ہیں اور سال کے باقی گیارہ مہینے لک بھگ سبھی سیاسی کارکنان اپنی روائیتی سرگرمیوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے ماہِ مقبول میں قوم کے ساتھ کیا وعدے وعید کیئے تھے ۔
یہ سیاسی روش گزشتہ 32 سال سے جاری ہے ۔ میرا تجزیہ ہے کہ اب سنجیدہ سیاسی کارکنان اور حقیقی قوم پرست سیاسی رہنما اس صورتحال سے دلبرداشتہ نظر آتے ہیں ۔ اور شاید ان حالات کے پیشِ نظر سنجیدہ سیاسی حلقے اپنی سیاسی جُہت کو تبدیل کرنے پر غور و فکر بھی کر رہے ہیں ۔ میرے خیال میں اب ایسا کرنا بہت ضروری بھی ہے ۔
اگرچہ ماہِ مقبول کے دوران عزم و استقلال کے عہد کا اعادہ کرنا از خود ایک مستحسن قدم ہےاور اس عمل کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے مگر یہ بات اب تشویشناک حد تک پریشان کُن مسئلہ بن چکی ہے کہ ماہِ مقبول کے دوران سیاسی کارکنان اور رہنما جس باہمی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ صرف ایک مہینے کی سیاسی سرگرمیوں کی حد تک ہی کیوں محدود ہے ۔
دوسرا اور اس سے زیادہ گمبھیر مسئلہ یہ ہے کہ ماہِ مقبول کے دوران تمام قوم پرست سیاسی کارکنان بابائے قوم حضرت مقبول بٹ شہید کے افکار پر کاربند رہنے کا عہد کرتے ہیں، تمام قوم پرست سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو شہیدِاعظم حضرت مقبول بٹ شہید کے نظریات کا وارث قرار دیتی ہیں اور تمام قوم پرست سیاسی زُعما اپنے آپ کو قائدِکشمر حضرت مقبول بٹ شہید کے سیاسی مشن کا سچا ہمسفر گردانتے ہیں ۔ مگر ان دعوؤں کے باوجود ان سب کی سیاسی راہیں باہم جدا، ان تمام کی سیاسی حکمتِ عملی ایک دوسرے سے متصادم اور انکے سیاسی قواعد ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔
اس صورتحال میں اب وقت آن پہنچا ہے کہ قوم بغیر کسی ابہام اور شک و شبہے کے اس امر کا تعین کرے کہ بابائے قوم حضرت مقبول بٹ شہید کی حقیقی سیاسی فکر کیا تھی اور اس سیاسی فکر کی روشنی میں اس امر کا تعین کیا جائے کہ آج کون سی سیاسی قوتیں حقیقی طور پر شہیدِاعظم حضرت مقبول بٹ شہید کے نظریات اور افکار پر کاربند ہیں اور کون سی سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جو محض عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے قائدِکشمر حضرت مقبول بٹ شہید کا نام لیتی ہیں جبکہ دراصل وہ شہیدِوفا حضرت مقبول بٹ شہید کے سیاسی افکار اور راہِ عمل کی پیروکار نہیں ہیں ۔ قوم پرستوں کی صفوں میں ایسے سیاسی مداریوں کی موجودگی کے باعث ہی غالباً قوم پرست باہمی اتحاد و اتفاق کی برکت سے بہرہ ور نہیں ہو پائے ۔ اس امر کا تعین کرنے کے لیئے کہ کون کون بابائے قوم کے سیاسی افکار پر کاربند ہے اور کون محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے ؛ پہلے شہیدِاعظم حضرت مقبول بٹ شہید کے افکار و نظریات کو سمجھنا ضروری ہے ۔
چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون میں شہیدِوفا حضرت مقبول بٹ شہید کے سیاسی افکار و نظریات اور انکی جدوجہد کی حقیقی راہ کو بیان کیا جائے تا کہ قارئین کرام از خود سچائی کی کھوج لگانے میں کامیاب ہو سکیں ۔
میں ان کے افکار سے قارئین کو روشناس کرانے کے لیئے ان کے اپنے ایک خط کے چند اقتباسات یہاں پیش کروں گی ۔ یہ خط سعید اسعد صاحب کی کتاب شعورِ فردا کے صفحہ 51 تا 60 طبع ہو چکا ہے ۔
12 اپریل 1973 کو بابائے قوم نے کیمپ جیل لاہور سے جی ایم میر کی صاحبزادی عذرا میر کو اپنے اس خط میں لکھا ” ۰۰۰۰۰
۰۰۰۰۰ پھر 1947 کا ریلہ آیا ۔ یہ ایک طوفان تھا ۔ حالات نے ایسی کروٹ لی کہ ہم غلامی کے ایک دور سے نکل کر دوسرے میں داخل ہو گئے ۔ ڈوگرہ شاہی ختم ہو گئی مگر اس کے نتیجے میں وطن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ ایک حصے پر ہندوستان نے فوجی یلغار کر کے قبضہ کر لیا اور دوسرا حصہ آزاد کہلائے جانے کے باوجود آزادی کی نعمتوں سے مالا مال نہ ہو سکا، اس طوفانی ریلے میں لاکھوں کی تعداد میں نہ صرف ہمارے بڑے بوڑھے بلکہ نوجوان اور بچے بھی شہید ہو کر امر ہو گئے ۔ جموں اور وادی کے میدانوں، پونچھ، مظفرآباد اور میرپور کی پہاڑیوں اور کارگل و لداخ کی چٹانوں میں جذب ہمارے جواں سال شہیدوں کے خون کے ساتھ ہماری ان گنت بچیوں اور معصوم بچوں کا لہو بھی شامل ہے ۰۰۰۰۰ آپ کو کتنے ہی ایسے معصوم اور پھول جیسے بچوں اور بچیوں کی کہانیاں سناؤں جو اس جنگ میں کام آئے ۰۰۰۰۰ ان میں سے بے شمار ایسے تھے جن کو حملہ آوروں نے اسی طرح گولیوں سے بھون کر رکھ دیا جیسے موسمِ بہار میں کسی درخت پر چہچہاتی چڑیوں کے جھنڈ پر کوئی بے رحم شکاری بندوق چلائے ۔ ان میں لاتعداد ایسے تھے جن کو ظلم کے نشے میں بدمست فرقہ پرستوں نے نیزوں اور تلواروں سے اس طرح کاٹا جیسے کوئی خونخوار بھیڑیا بھیڑوں کے گلہ میں گھس کر بھیڑوں کی چیر پھاڑ شروع کر دیتا ہے ۔ عذرا بیٹی ! ہماری محکوم قوم کے بچوں اور بچیوں کی قربانیوں کا یہ سلسلہ 1947 میں ہی ختم نہیں ہوا، یہ ابھی تک جاری ہے، اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پوری قوم آزاد نہ ہو جائے ۔
کیا مقبوضہ کشمیر اور کیا آزاد کشمیر دونوں طرف ہمارے عوام برابر قربانیاں دے رہے ہیں ۔ دونوں طرف سے معصوم بچے اور بچیاں غلامی کے ہیبت ناک سایوں میں پروان چڑھ رہے ہیں ۔ گزشتہ پچیس برس کی مدت میں نہ معلوم کتنے ہی کشمیری بچے آزادی کے دشمنوں کی قتل و غارت گری کے باعث شہید اور یتیم ہو گئے، کتنے ہی ظلم اور لوٹ کھسوٹ کے باعث بے سہارا ہو گئے اور اس طرح ان سہولتوں سے محروم رہے جو ان کی نشو نما اور تربیت کے لیئے ضروری تھیں ۰۰۰۰۰ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ کشمیریوں نے پاکستان کے لیئے جانیں دی ہیں مگر پاکستان انہیں اب بھی “جاسوس” قرار دے رہا ہے ۔ یہاں آپ کے خیال میں تھوڑا سا نقص ہے، کشمیریوں کو پاکستان نے نہیں بلکہ اس ملک کے غدار حکمران ٹولے نے جاسوسی کا الزام دیا ۔ یہ وہی غدار حکمران ٹولہ تھا جس نے اس ملک کے ٹکڑے کر دئیے ۔ جس نے پچیس برس تک اس ملک کے عوام کو آزادی اور جمہوریت سے محروم رکھا ۔ دراصل یہ غدار حکمران ٹولہ خود “جاسوسوں” سے بھی بدتر کردار کا مالک تھا ۔ اس لیئے اس نے تمام محبِ وطن اور عوام دوست لوگوں کو غیرملکی ایجنٹ یا جاسوس قرار دے دیا ۔ جس حکمران ٹولے نے اپنے عوام کے ساتھ دشمنی کی اور اس کے مسلمہ لیڈروں کو جاسوس کہتا رہا اس نے اگر ہم کشمیریوں پر جاسوسی کا الزام لگایا تو اس سے خفا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ رہا اصل پاکستان یعنی اس ملک کے عوام تو ان کے سامنے جب بھی حقیقت آئے گی وہ اسے تسلیم کریں گے ۔ ہمیں یہاں جو سزائیں دی گئیں وہ پاکستان کے اصل مالکوں نے تو نہ دیں ۔ یہ سزائیں اس ظالم حکمران ٹولے نے ہمیں دی ہیں جس نے اپنے ہی عوام پر گولیاں برسائیں ۔ ظاہر ہے جو حکمران اپنے عوام کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہیں وہ دوسروں کے ساتھ بھی ناانصافی ہی کرتے ہیں ۔ کشمیری عوام کو پہلے بھی پاکستان کے حکمران طبقہ نے جنگِ آزادی میں اس طرح مدد نہیں دی جیسا کہ اسے چاہیئے تھا ۔ اس طبقے کو تو کشمیر کی آزادی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ۔ ان کی تمام باتیں سب زبانی جمع خرچ ہیں ان پر بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہیئے ۔ البتہ پاکستان کے عوام ہمارے اصل دوست اور حامی ہیں ان کی مدد کشمیری عوام کو ضرور حاصل ہو گی ۰۰۰۰۰ کشمیری حریت پسندوں کو جاسوس قرار دے کر ان حکمرانوں نے دراصل بھارت کی خدمت کی ہے ۰۰۰۰۰ یہ سوچنا بھی غلطی ہے کہ کشمیری نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ۔ ہم لوگ پہلے بھی اپنے وطن کے سچے بیٹے تھے اور آئیندہ بھی رہیں گے ۔ ہمارے دلوں میں آزادی کا جو جذبہ ہے وہ انشا اللہ ہمیشہ قائم رہے گا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیئے ہم دنیا کی ہر طاقت سے ٹکر لیں گے ۰۰۰۰۰ کشمیریوں نے وطن کی آزادی کے لیئے جو خون بہایا ہے وہ رائیگاں نہیں جائے گا ۔ شہیدوں کا لہو ہمیشہ رنگ لا کر رہتا ہے اور یہ آزادی کا رنگ ہوتا ہے ” ۔
بابائے قوم کا یہ خط آپ کے نظریات اور سیاسی افکار کا ایک جامع بیان ہے ۔ اس خط کے مندرجات کی روشنی میں مختلف سیاسی کارکنان اپنی سیاسی جماعتوں کے بارے میں از خود تجزیہ کر سکتے ہیں کہ وہ کس حد تک بابائے قوم کے سیاسی افکار اور نظریات پر کاربند ہیں ۔