جواداحمد پارس
فرانس مغربی یورپ کا انتہائی خوبصورت ملک ہے جس کا دارالحکومت پیرس ہے جو کہ فنون لطیفہ اور آرٹ اور طرز تعمیر کی وجہ سے پوری دنیا کے سیاحوں کا مرکز ہے پیرس میں موجود آئفل ٹاوراور کلاسیکی آرٹ لوگوں کو ہمیشہ سے اپنی طرف رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر مائل کرتا رہا ہے۔آئفل ٹاور فرانس کی تاریخی نشانی ہے۔جدید قسم کا کھانا، بہترین الکحل ، لیسکس کے قدیم غار،لیون کے رومن تھیٹر اور ورسیلیس کے محل ایک طویل تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔یہ جزائر اور عجائبات سے بھرا ہوا ملک ہے۔ یہ یورپ کا ثقافتی ، سیاسی اور فوجی طاقت بھی رہا اور اٹھارہویں صدی کے انقلاب کے بعد یہ ایک جدید فرانس بن گیاجس میں حتی المقدور سیکولرازم کے نظریات حاوی ہو گئے اس کی وجہ ایک عرصہ تک چرچ کے پادریون سے پسنے والی فرانسیسی قوم تھی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فرانس بھر پور شریک رہا 1940میں فرانس پر قبضہ کر لیا گیا جبکہ 1944میں اسے دوبارہ کالونی کا درجہ مل گیا۔ اب فرانس مین اسلام کی طرف آتے ہیں۔
فرانس میں ۳۱ نومبر کو ہونے والے واقعے نے پوری دنیا کو جہاں ہلا کر رکھ دیا وہیں ایک نئی بحث نے بھی جنم لیا۔ کئی سوال اٹھنے لگے اور مستقبل کی پیشن گوئیاں کی جانے لگی خاص کر اہل اسلام کے حوالے سے۔ کیا اس واقعے کے بعد یورپ اور امریکہ مسلمانوں پر ایک نئی جنگ مسلط کریں گے جیسا کہ 9/11کے واقعے کے بعد ہوا ؟ کیا اس کے بعد یورپ سے مسلمانوں کو نکلنا ہو گا؟ کیا یہ واقعہ تیسری جنگ عظیم کا شاخسانہ ثابت ہو گا؟؟ اور دیگر کئی سوال ۔ جواب جو بھی ہو امت مسلمہ پر اس واقعے کے بعد گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اسلام فرانس کا دوسرا بڑا مذہب ہے فرانس کی آبادی اس وقت ساٹھ سے ستر ملین یعنی سات کروڑ کے لگ بھگ ہے اس میں مسلمانوں کا تناسب سات سے دس فیصد یعنی چالیس سے ساٹھ لاکھ کے درمیان ہے جن کی زیادہ تعداد مغربی فرانس میں قیام پذیر ہے فرانس میں مقامی مسلمان تقریبا دس لاکھ ہیں اور باقی مختلف ممالک سے ہجرت کر کے فرانس میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔
یورپ میں مسلمانوں خاص کر سپین کی فتح کے بعد اہل کلیسا فرانس میں پناہ گزین ہونے لگے۔ نویں صدی تک مسلم افواج نے فرانس کے بھی اچھے خاصے حصے پر قبضہ کر لیا تھا ، پندرویں صدی کے وسط تک فرانس کے شہر ٹولان کو عثمانی خلافت اپنے بحری بیس اور بندرگاہ کے طور پر استعمال کرتی تھی اور یہاں ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر تھی اس علاقے سے عیسائیوں کو نکالا گیا تھایہ علاقہ دوبارہ فرانس کے پاس آ گیا۔سولہویں صدی کے اواخر اور سترہویں صدی کی ابتداءمیں جب سپین پر عملا فرڈینینڈ یا کلیسا کا قبضہ ہو گیا تو وہاں کے مسلمانوں (ان مسلمانوں کو نفرت سے مور یا مورسکوز کہا جاتا تھا ، سپین میں اس دوران مسلمانوں کی اہمیت مکھی سے بھی کم تھی نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو کلیسا کہ تحویل میں دے دیا جاتا تھا جو ان کو عیسائی بنا دیتے تھے) یا مورسکوز کو نکال باہر کیا گیا یہ لوگ افریکہ اور ترکی کی طرح ہجرت کرنے لگے تو لیپری کی تحقیق کے مطابق تقریبا پچاس ہزار مورسکوز /مسلمانو فرانس میں داخل ہوئے۔ یہ ایک بڑی تعداد تھی اس وقت تک فرانس میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد پہلے سے بھی موجود تھی۔1922میں فرانس کے دارالخلافہ میں عظیم مسجد بھی تعمیر کی گئی۔یہ فرانس میں مسلمانوں کی تاریخی یادگار کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ واضح رہے کے فرانس میں انقلاب کے بعد یہ ملک سیکولرازم نظریات کی حامی تھا یعنی ملک کا کوئی بھی سرکاری مذہب نہیں تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ممالک کی معیشت ڈگمگانے لگی تو لوگ ایک ملک سے دوسرے اور پھر تیسرے ملک روزگار کے سلسلے میں جانے لگے۔ ساٹھ کی دہائی میں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد فرانس میں وارد ہوئی تو اس مین مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی یہ الجیریا ، افریکا اور ایشیائی ممالک سے وہاں گئے تھے۔ 1976میں فرانس کی حکومت نے ایک قانون منظور کیا جو ادیگر ممالک سے آئے ہوئے لوگوں یا محنت کشوں کو اپنے بچوں کو ساتھ فرانس میں لانے اجازت دی۔اور پھر 1992میں انہی لوگوں کو فرانس میں مستقل شہریت دینا بھی شروع کر دی اور نئی نسل وہاں دیگر ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کی بھی ہونے لگی۔ گرچہ فرانس کی حکومت سیکولر ہے مگر بیسویں صدی کے اختتام تک فرانس کی حکومت نے مسلمانوں کی نمائندگی کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ 2002میں اس وقت کے وزیر داخلہ نکولس سرکوزی نے ©”مسلم عقیدے کی فرانسیسی کونسل“(French council of the Muslim Faith)تخلیق کی۔ اس وقت کے حکومت نے اس کو غیر رسمی طور پر تسلیم کر لیا مگر اس کی کوئی آئینی یا سرکاری اہمیت نہیں تھی اور یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم بن گئی۔ یہ اصل میں 9/11کے حملوں کے بعد کی مسلم آبادی سے تعاون کرنے کی ایک کوشش تھی۔ 2004میں جب پیرس مسجد کے مفتی کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تو اس پر بڑی تنقید کی گئی۔2005میں فسادات کی وجہ اسلامی تنظیموں کی یونین کی وجہ سے اس کے سربراہ پر اور بھی تنقید میں اضافہ ہو گیا اس کی وجہ مفتی کا خود کو سیاست میں شامل کرنا تھا۔ فرانس کی اسلامی تنظیموں کی یونین اور نیکولن سرکوزی کی بنائی گئی تنظیم پر دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں کل کر تنقید کا نشانہ بنایا۔
فرانس میں اسلام پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب 1989میں فرانس کے ایک اسکول سے ایک مسلم طالبہ کونکال دیا گیا کہ وہ برقع پہنتی ہے یا پردہ کرتی ہے اور جب اسے حجاب اتارنے کا کہا گیا تو اس نے ایسا نہیں کیا۔اس سے سکول کا ماحول خراب ہوتا ہے اور دیگر بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔1990میں پھر اسی قسم کا ایک واقعہ ہوا۔ ان دو واقعات کے بعد اس چیز کو مزید ہوا دی گئی اور یہ کہا گیا کہ مسلم خواتین چونکہ سکارف یا حجاب پہنتی ہیں تو اس لحاظ سے وہ فرانسیسی ثقافت کا حصہ نہیں بن سکتیں ان کی یہ حرکت ان کو فرانسیسی کلچر سے مماثل کرتی ہے اسی چیز نے آگے چل کر مسلم، عرب اور مغرب کی اختلاف کو ہوا دی اور فرانس میں یہ چیز قومی سطح پر مانی جانے لگی کہ مسلمانوں کی ثقافت فرانس کے سیکولر معاشرے کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔1994میں ایک میمورنڈم پاس کیا گیا جس کے مطابق سکول میں مذہبی نشانات پہن کر جانے کی ممانعت کر دی گئی جس میں حجاب بھی شامل تھا، اسی مہینے میں سکول کی طالبہ نے اس کے خلاف احتجاج کیا مگر اگلے ہی دن ان کو بھی ان کے سکولوں سے نکال دیا گیا۔ اس طرح اگلے دس سالوں میں تقریبا سو مسلم خواتین کو سکول اور کالجوں سے حجاب کی وجہ سے نکالا گیا۔ فرانس مین اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کو مختلف مشکلات جن میں اسلام کے منافی قوانین کا پاس بھی کرنا پڑتا ہے۔ فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک میں اس وقت حجاب کی مخالفت میں مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان تنظیموں میں خواتین کے گروہ شامل ہوتے ہیں جو مختلف موقعوں پر ننگی ہو کر پہنچ جاتی ہیں اور اسلامی قوانین کا مذاق اڑاتی ہیں یہ گروہ اسلام کے اور خاص کر پردے کے سخت مخالف ہیں۔
2006فرروری میں فرانس میں ایک اخبار نے گستاخانہ خاکے شائع کیے جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔ گر چہ اس وقت کے وزیراعظم نے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی مگر کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ فرانس میں مسلمانوں گروہوں کی تنظیم یہ معاملہ عدالت مین لے گئی مگر عدالت نے یہ کہہ کر کارروائی خارج کر دی کہ اس میں سے دو خاکے کسی کے مذہب پر تنقید نہیں کر رہے۔۲ نومبر 2011میں اخبار کے دفتر پر بموں سے حملہ کیا گیا اور اس کی ویب سائٹ کو ہیک کر لیا گیا۔ جبکہ ۳ نومبر کو اخبار نے پھر توہیں آمیز خاکے شائع کیے اب اخبار کا نام ”چارلی ہیبڈوز“ رکھ دیا گیا ۔ اس کے بعد چارلی ہیبڈوز نے کارٹونوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں اسلام اور اسلامی قوانیں پر کڑی تنقید کرنا شرو ع کر دی ۔ جس میں لیبیا کے انتخابات، تیونس میں مذہب پسند جماعتوں کی کامیابی، اسلامی شریعت کے نام پر خواتین کو جبرا گھروں میں قید کر کے زیادتی،جبری حجاب، آزادی پر پابندی،جبری شادی، زنا،کوڑے مارنے، ہاتھ پاﺅن اور زبان کاٹنے اور بچوں کی ابتدائی تعلیم کو لے کر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اخبار کے مدیر نے کہا کہ اسلام مذاق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
2012 میں اسی اخبار نے پھر توہین آمیز خاکوں کی ایک سیریز شروع کی جس میں ننگے خاکے بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ہی “innocence of Muslims”نامی ایک فلم کے بعد مشرق وسطی اور دنیا بھر میں مسلمان سراپا احتجاج بن گئے اور امریکن اور دیگر یورپین سفارت خانوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کی وجہ سے ان ممالک کو اپنے سفارت خانے مشرق وسطی سے بند بھی کرنے پڑے۔فرانس کو بھی تقریبا بیس مسلم ممالک میں اپنے مشن اور سفارت خانے مکمل طور پر بھی بند کرنا پڑے۔گر چہ چند دنوں میں فرانس کے وزیر خارجہ نے اخبار کی اس حرکت پر تنقید کی اور کہا کہ اس طرح کسی کے جذبات نہیں مجروح کرنے چاہیں مگر یہ صرف جلتی کو بجھانے کی ایک ہلکی سے کوشش تھی۔ وائٹ ہاﺅس کے ایک بیان میں بھی اس قسم کے واقعات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ اس طرح کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہیے۔جبکہ اخبار کے ایڈیٹر نے کہا کہ ہمیں اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے ہم کسی کے بھی کارٹوں بنا سکتے ہیں جبکہ ہم یہ محمد (ﷺ) کے ساتھ کرتے ہیں تو یہ اشتعال انگیزی کیونکر ہو سکتی ہے۔
۷ جنوری ۵۱۰۲ کو ایک آدمی چارلی ہیبڈو کے ہیڈکوارٹر پہنچا اور فائر کھول دیا فائرنگ کے دوران وہ ”اللہ اکبر ، اللہ اکبر“ چلاتا رہا اس واقعے میں چارلی ہیبڈو میں کام کرنے والے 11افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے جن اخبار کے کارٹونسٹ، ایک اکانومسٹ، ایڈیٹر ، ایک مزدور اور پولیس والا ہلاک ہوئے جبکہ ۱۱ افراد زخمی ہوئی جن میں سے چار کی حالت خطرناک تھی۔ جبکہ اگلے روز اخبار کے بچے ہوئے سٹاف نے اعلان کیا کہ اخبار جاری رہے گا۔
یہ فرانس میں اسلام دشمنی کی ایک مختصر سی تاریخ تھی جس کو اگر کھولا جائے تو بہت لمبی بنتی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کیوں کر کیا جائے؟ فرانس میں ہونے والے حالیہ واقعے کے جو ثمرات ہو گے جو تو دیکھا جائے گا، مگر یہ واقعہ انہی واقعات کا مرہون منت نظر آتا ہے جو ماضی میں یورپ میں مسلمانوں کے خلاف کیے جاتے رہے ہیں۔ مذہب ایک نہایت ہی حساس معاملہ ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ اور بھی حساس ہو جاتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ واقعہ تاریخ عالم کو کس سمت میں لے جاتا ہے اور اس کے نتائج کتنے دوررس ہو سکتے ہیں۔ اس وقت دنیا دو گروہوں مین تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے ایک دہشت گرد یا مسلم گروہ اور دوسرا امن پسند یا غیر مسلم گروہ ۔