جواداحمدپارسؔ
شہر میں کڑاکے کے گرمی تھی سورج پوری شدت و آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ہوا کا نام و نشان نہیں تھا اور حبس کی وجہ سے لوگوں کے کپڑے لمحوں میں بھیگ جاتے تھے۔ شہر میں قریبا قریبا قاتل ویرانی تھی صرف چند لوگ ہی پیدل نظر آ رہے تھے ۔ گاڑیاں فراٹے بھر رہی تھیں ، رکشوں کے شور جیسے انسانی برداشت کا امتحان لے رہا تھا۔میں صبح سویرے ہی گھر سے ایک انٹرویو کے سلسلے میں شہر آیا تھا ۔ ایک لمبے انتظار کے بعد انٹرویو کے لیے کمرے میں بلایا گیا۔ چند سوالات و جوابات ہوئے اور پھر انتظار کا کہہ کر باامید کر دیا گیا کہ امید کے سہارے اگلے چند دن گزارو بلا لیا تو اچھا نہیں تو صاحب کوئی اور نوکری تلاش کر لو۔اس وقت تقریبا دوپہر کے ایک بج چکے تھے میں نے ایک ہوٹل پر بیٹھ کر کھانا کھایا ، پانی پیا اور واپسی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔
مظفرآباد شہر میرے لیے کبھی اجنبی نہیں رہا ، یہ میرا اپنا شہر ہے اور اس شہر سے میرا ایک تعلق ہے ، ایک واسطہ اور ایک قربت ہے۔ مجھے اس شہر میں ہمیشہ ہی سی آ کر خوشی محسوس ہوتی ہے گوکہ یہ کہنے کو آزاد کشمیر کا دارالحکومت ہے مگر یہ ترقی کے حساب سے کشمیر کے دوسرے شہروں سے کافی پیچھے ہے۔گرچہ یہ آزادی کا بیس کیمپ کہلاتا ہے اور سابق صدر آزاد کشمیر جناب خورشید حسن خورشید مرحوم کی انتھک محنت اور کوشش کے بعد یہاں ایک عدد کشمیریوں کی نمائندہ اسمبلی، ایک عدد سپریم کورٹ ، ایک عدد الیکشن کمیشن کا دفتر، ایک عدد وزیر اعظم اور صدر بھی ہوتے ہیں مگر عملاََ یہ الحاق پاکستان کا بیس کیمپ ہے جس میں کشمیر کے نام پر سیاست ہوتی ہے اور کشمیر کی آزادی کے لیے آج تک کچھ نہیں ہو سکا۔ یہاں کے حکمران دراصل کٹھ پتلیاں ہیں جو پاکستان کی وڈیرہ شاہی ، بیوروکریسی اور سرمایہ داروں کے آگے ناچتے رہتے ہیں اور ہمیشہ سے کوشش کرتے ہیں کہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار رہا جائے۔ گوکہ یہ لوگ نسلاََ کشمیری ہی ہوتے ہیں اور نام کے طور پر صدر وزیر اعظم وزیر حکومت وغیرہ وغیرہ کا کردار کسی ڈرامے کی طرح ادا کرتے رہتے ہیں اور اپنے کردار سے کبھی نہیں چوکتے۔ان لوگوں کو ہر پانچ سال بعد آزاد کشمیر کے لوگ بڑے جوش و خروش سے ووٹ دے کر اسمبلی میں داخل کرتے ہیں مگر اصل میں ان کے کردار پردے کے پیچھے لکھے گئے ہوتے ہیں اور متعین ہوتے ہیں کہنے کو ملک کے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر کشمیر ہاؤس اسلام آباد کے چپراسی سے بھی ان کی قیمت قدرے کم ہوتی ہے خیر !میرے اندر کا کشمیر ی نے کچھ زیادہ ہی انگڑائی لے لی ہے۔
بات چلی تیری آنکھوں سے جا پہنچی مہ خانے تک
یہاں سے آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں اور پاکستان جانے کے لیے صرف ایک اڈا ہے جو کہ ہمہ وقت کچھا کھچ بھر رہتا ہے ۔ دریائے نیلم جو کہ اب ارتقائے زمانہ کے بجائے اہل پاکستان کو پانی و بجلی کے فراہمی کا شکار ہو گا اور جلد ہی اس شہر سے یوں موڑ لیا جائے گا جیسے یہ کبھی اس شہر کا تھا ہی نہیں قریب سے ہی بہہ رہا ہے ۔ گرچہ گرمیوں میں اس میں طغیانی ہوتی ہے مگر اسی شہر پر سورج بھی کافی مہربان ہوتا ہے او ر ارد گرد کے پہاڑوں کا وجہ سے حبس کا شکار رہتا ہے یوں دریائے نیلم کی ہوائیں بھی یہاں عملا بے کار ہو جاتی ہیں ۔ میں اڈے میں پہنچا تو ہو کا عالم تھا اکا دکا مسافر زاد راہ اٹھائے گاڑیوں کے انتظار میں کھڑے تھے ، اڈے کے مالکان سواریوں کے انتظار میں ہلکان ہو رہے تھے کہ اگلی گاڑی کا نمبر آئے ہر گاڑی اپنا وقت گزر جانے کے بعد واپس اپنی جگہ پر کھڑی ہو رہی تھی اور دوسری کو جگہ دے رہی تھی ۔ مجھے جاتے ہیں اپنی مطلوبہ سیٹ مل گئی مگر اڈہ مینیجر نے قصدا گاڑی کا نمبر نہیں لکھا تاکہ سواریاں پوری نہ ہونے کی وجہ سے دوسری گاڑی جو کہ اپنے نمبر کے انتظار میں کھڑی تھی اپنی باری پر آ جائے میں نے ٹکٹ کاؤنٹر سے ٹکٹ لیا، بیگ سنبھالا اور سیٹ پر براجمان ہو گیا ۔
اس کڑاکے کی گرمی میں جبکہ ہر ذی روح کسی سائے کی تلاش میں بھٹکتا ہے اور سستانے کی کوشش کرتا ہے میں نے دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر آدی ، عمر ستر کے لگ بھگ ہوئی ہو گی لاٹھی کا سہارا لیے ایک گاڑی سے دوسری گاڑی تک جا رہا ہے شیشے کھٹکھٹا رہا ہے اور بھیک مانگ رہا ہے مجھے اس کا یہ شغل کافی دلچسپ لگا اور میں غور سے دیکھنے لگا کہ یہ کتنے لوگوں کے پاس جائے گا اور اسے کتنے لوگ پیسے دیں گے ، کچھ لوگ اس کے لیے شیشہ کھول رہے تھے اور کچھ لوگ شیشہ چڑھا لیتے تھے قریبا قریبا ہر مسافر کے پاس وہ آٹھ سے دس منٹ لگا رہا تھا ان کی منت سماجت کرتا اور اللہ کے نام پر مانگتا۔ ایسے لوگوں کے حوالے سے میری شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ میں پیسے نہیں دیتا تھا کیونکہ ان لوگوں نے بھک کو کاروبار بنا رکھا ہوتا ہے مگر نا جانے کیوں اس پر مجھے ترس آ رہا تھا لوگ اس کے دھتکار رہے تھے پچھلے آدھے گھنٹے میں وہ آٹھ سے دس لوگوں کے پاس گیا تھا اور صرف ایک نے اسے شاید دس روپے دیے تھے جو اس نے مٹھی میں دبائے اور اسے کو بہت ساری دعائیں دے کر اگلے کے پاس چلا گیا تھا اور میرے پاس پہنچنے تک اس کے پاس وہی دس روپے تھے ۔
اب وہ میری طرف آ رہا تھا میں نے قصدا سیٹ سے ٹیک لگا لی اور آنکھیں بند کر لیں تاکہ مجھے سوتا سمجھ کر آگے نکل جائے مگر اس نے میری کھڑکی کا شیشہ کھٹکھٹایا ۔ میں نے آنکھیں نہیں کھولیں تو اس نے دوبارہ کھٹکھٹایا۔ اب کی بار میں نے آنکھیں کھولیں اور اس کی طرف دیکھنے لگا ’’کیا ہے ۔۔۔؟؟‘‘ میں نے بند شیشے سے ہی پوچھا ۔ اس نے ہاتھ میری طرف پھیلایا جانے کیا کہا میں نہیں سن سکا مگر میں نے ہاتھ جوڑ کر معاف کرنے کا کہا مگر اسے ٹس سے مس نہ ہوئی اور دوبارہ شیشہ کھٹکھٹانے لگا۔ دو تین مرتبہ کھٹکھٹانے کے بعد میں نے شیشہ کھول دیا۔۔
’’ جی بابا جی۔۔۔ ! فرمائیے‘‘ میں نے ایسے پوچھا جیسے میں جانتا نہیں تھا وہ کیا چیز طلب کر رہا ہے ۔
’’اللہ کے نام پر کچھ دے دو بیٹا ، اللہ کے نام پر کچھ دے دو۔۔ اللہ تمہیں بہت دے گا تمہاری عمر لمبی کرے گا ‘‘ غرض اس نے وہی لمبی رٹی رٹائی دعائیں دینا شروع کر دیں جو اکثر بھکاری دیتے ہیں وہ دعائیں جن سے میں اکتا جا تا ہوں۔
وین میں میرے علاوہ دو تین لوگ اور بھی موجود تھے جبکہ اس کے چلنے کے ابھی دور دور تک نشانات نہیں تھے ۔میرے ہاتھ میں پانی کے بوتل دیکھ کر اس نے مجھ سے پانی مانگ لیا جو کہ دو تین گھونٹ ہی باقی بچا تھا میں نے پانی اس کے ہاتھ میں تھما دیا اس نے پانی پی کر بوتل مجھے واپس کرنا چاہی تو میں نے اسے منع کر دیا اور کہا کہ وہ اس میں پانی ڈال کر اپنے پاس رکھے اور پیئے۔ اس نے پھر اللہ کے نام پر مانگنا شروع کر دیا۔ لب و لہجے سے وہ مجھے وہیں ارد گرد کا دیہاتی لگا ۔ ’’کہاں کے ہو بابا۔۔؟؟‘‘ میں نے سوال کیا تو جواب میں اس نے جو کہانی سنائی وہ اسی کی زبانی سنتے ہیں۔
میرا(دو تین سال پہلے کی بات ہے اب علاقہ غلط بھی ہو سکتا ہے)دھیر کوٹ سے ہے۔ میری عمر ستر سال کے لگ بھگ ہے اور میری بیوی کو فالج ہوا ہے جو کہ بستر پر ہے اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے اور میں خود بھی مختلف بیماریوں کا مرکب ہوں میرا ایک بیٹا ہے جو کہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتا ہے اور وہ ہماری دیکھ بھال نہیں کرتا اس کی بیوی ہمارے ساتھ جھگڑا کرتی ہے کبھی کبھی دل کیا تو کھانا دے دیتی ہے ورنہ وہ بھی نہیں دیتی۔ وہ خود غریب ہے اور محنت منزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے وہاں گاؤں میں کبھی مزدوری ملتی ہے کبھی نہیں ملتی میرے پاس کچھ زمین تھی جو کہ کافی عرصہ پہلے ہی گاؤں کے علمبردار نے ہتھیا لی تھی اب میرے پاس اپنے بیٹے کو دینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے بس ایک کوٹھا ہے جس میں رہتا ہوں ۔ میں بھیک مانگ کر باقی کی زندگی کے دن گن رہا ہوں خدا بھی مجھ پر مہربان نہیں ہو رہا کہ مجھے موت کی آغوش میں دے دے۔
اس کی کہانی سن کر میں سکتے میں آ گیا جو کہ مجھے اب پوری یاد نہیں ہے مگر اس کہانی کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جس کا میں اب ذکر کرنے والا ہوں میں نے اس سے اگلا سوال پوچھا ’’بابا جی۔۔۔! آپ نے یقیناًووٹ دیا ہو گا اور آپ کے حلقے سے کوئی وزیر یا منسٹر بھی ہو گا ، آپ اس کے پاس جائیں ظاہر ہے آپ نے اسے ووٹ دیا ہو گا ۔ آپ اس سے کہیں کہ وہ آپ کا علاج کروائے اور آپ کی بیوی کا بھی ۔اس نے آپ سے ووٹ مانگا ہو گا اب آپ اس سے کہیں کہ وہ بدلے میں آپ کی مدد کرے آپ کی بیماری پر تو اچھی خاصی رقم خرچ ہو گی ‘‘ اس بے چارے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہنے لگا ’’ نہیں بیٹا میں نے ووٹ تو دیا تھا مگر میں اس منسٹر سے کبھی ملا نہیں ہوں وہ تو گاؤں کے بڑوں کے کہنے کی وجہ سے دیا تھا میں ان کے پاس بھی گیا تھا اور ایک دفعہ وزیر صاحب کے پاس بھی جانے کی کوشش کی تھی مگر وہاں ہماری پہنچ کہاں میں بیٹھا رہا اور وہ گاڑی پر نکل گئے۔ ‘‘ ’’تو پھر آپ نے ووٹ کیوں دیے تھے‘‘ میں نے قدرے تلخ لہجے میں کہا ’’ میں تو ان پڑھ ہوں مجھے تو گاؤں کے بڑے بڈیروں نے کہا تو میں نے ووٹ دیے ‘‘
اس کی باتوں میں تلخی تھی ، ایک عمر کی تھکاوٹ تھی ، وہ تھکاوٹ جو وہ اپنے بچوں کے لیے دن کی محنت کے بعد کما چکا تھا ۔ مگر ابھی تک اس کے لہجے میں متانت تھی اس اولاد کے لیے جو اسے چھوڑ چکی تھی، اس وڈیرے کے لیے جس نے اس کی زمین ہتھیا لی تھی، اس منسٹر کے لیے جواس سے ووٹ لے کر عیاشیاں کر رہا تھا۔ مگر شکوہ کہیں نہیں تھا۔ میں نے شاید اسے پانچ یا دس روپے تھے۔ میں سارے سفر میں حضرت عمر کے بارے میں سوچتا رہا جو کہتے تھے اگر دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرے گا تو مجھ سے سوال ہو گا۔ میں سوچتا رہا اور میں آج تک سوچتا ہوں