ضلع حویلی قدرتی حسن سے مالا مال ہے اس سروسمن خطے کو اللہ عزوجل نے دلفریب حسن سے
نوازہ ہے.
آبشار سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں خوبصورت وادیاں اور ان وادیوں میں چھوٹے چھوٹے خوبصورت کھیت اور ان کھیتوں میں لہلاتی لہراتی بل کھاتی فصلیں ہائے جنوں کو ضبط دیکھاتی قدرت کے کرشمے سے ہر ذی شعور کو لطف اندوز کرتی ہیں .
حویلی میں بسنے والوں کی ہمیشہ مہمان نوازی ہی ان کا بہترین تشخص رہا ہے ایثار ان کا پیشہ ہے یہ الگ بات ہے کہ آزاد کشمیر کا سب سے پسماندہ علاقہ کہلاتا ہے
آج کے اس جدید دور میں ضلع حویلی کئی انسانی سہولتوں سے محروم ہے دور دراز علاقوں میں ابھی بھی زمانہ بت ہبل صلصلے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے
کہ اس کے پہاڑوں کہساروں اور دروں سے کھنچنے جانے والی خونی لکیر اسکے مقدر کا خدا بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس ضلع پر کم ہی کوئی توجہ دیتا ہے
لیکن اس کی محرومی کی سب سے بڑا وجہ کچھ اور ہے جو ترقی کے بہتر نتائج حاصل کرنے کی بڑی رکاوٹ ہے .
جدید دنیا میں یا جدیدترین نظریات کے تناظر میں ضلع حویلی کو دیکھا جائے تو حویلی پھتر کے زمانے کی کئی داستانیں پیش کرے گی . سکول سے لے کر نلکے تک اور سڑک سے لے بجلی تک تقرری یا تبدلہ بلکہ سادی سی مثال یوں دونگا.
کہ جو اخبار کئی لوگ پڑھ کر پرانا کر دیتے ہیں اور حویلی میں شائع ہوتا ہے تو ہمارے لیے یوں لگتا ہے کہ آج ہی ملا ہے اس کی وجہ سڑک کے گھنڈرات اور بالخصوص برف باری کے عالم میں دنیا سے بے خبر رہنا ہے.
دنیا سمٹ کر گلوبل Village بن چکی ہے لیکن حویلی میں ابھی تک ٹیلی فون کی مکمل سہولت نہیں ہے
ہم قابل بھی ہیں اہل علم بھی ہیں ڈاکٹر بھی پیدا کرتے ہیں اور سیاست دان بھی پیدا کرتے ہیں بڑے نامور قبیلے بھی ہیں مورخ بھی ہیں اور پاکستان آرمی میں نامور شخصیات بھی حویلی کی پیچان ہیں میں اس سے انکار نہیں کر سکتا
حویلی کے عام انسان مزدور محنت کش غریب شخص کے لیے شاید ابھی تک کوئی شخص پیدا نہیں ہوا جو مکمل ضلع حویلی کی بدقسمت عوام کو برداری ازم جیسی لعنت کو ختم کرکے حصول زندگی کو متعارف کرواسکے
اللہ عزوجل نے عطا ہی نہیں کیا اور جو عطاء کیا وہ چھین لیا ..
لیکن جہاں عطا کا سوال ہے وہاں خودی کا سوال بھی آتا ہے جہاں خودی آتی ہے وہاں ہم من حیث القوم اہل حویلی بڑےبے بس نظر آتے ہیں .
اس کی بڑی وجہ یہ ہے شعور کا ادراک نہ ہونا عزت اور غیرت کو برادریوں کی سیاست میں منجمد کرکے رکھ دیا ہے جس کی تعریف دنیا میں کہیں نہیں ملتی
بلکہ بحثیت مسلمان قرآن یا حدیث سے اس براداری ازم کی تعریف نہیں ملتی جو ضلع حویلی میں ہے آخر کیوں اس وجہ صرف ہر ذی شعور اپنے ارد گرد دیکھے تو محسوس کر سکتا ہے
کسی یورنیورسٹی یا کالج یا کتب میں اس کی محرومی کی وجہ نہیں ہے کچھ لوگ اس کو سیاست کا نام دیتے ہیں کہ یہاں
سیاست درست نہیں ہے
لیکن سیاست سے پہلے یہ سوچنا چایئے کہ سیاست کو چھوڑ کر ہم کہاں کھڑے ہیں کیا ہم سیاسی محاذ کے علاوہ بلکل درست ہیں میرا خیال ہے ابھی تو آداب ء زندگی سے ناواقف ہیں ہم
ہماری بدقستمی کی ایک چھوٹی سی وجہ یہ بھی ہے ہمارے ہر گھر میں لیڈر پیدا ہوتے ہیں جو خشک نعرے کی بے پناہ
فائرنگ سے طوفان برپا کرتے ہیں
لیکن وہ نغم شاید ہی کوئی سناتا ہو جس سے کسی قوم یا معاشرے کے مدہوش نوجوان رقص کے لیے ہی جاگ جایئں …. تو کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے .
جس قابل انسان ہو کچھ نہ کچھ اپنے لیے نہیں بلکہ علاقے کے لیے کچھ کرتا رہے وہ جگہ محلہ معاشرہ قوم ایک دن اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہے
محروم حویلی حولات حوت ہو سکتی ہے تسکین ء روح نہیں …
ابھی تک مضطرب ہے گو تری محفل میں بیٹھا ہے
کہ رہ رہ کر خیال آتا ہے جوہر کو بیابان کا