جواداحمدپارس
آزاد کشمیر میں آمدہ وزیر اعظم کا نام ابھی سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے اور ایک حد تک لوگوں کا ماننا ہے کہ اگلا وزیراعظم معروف صحافی مشتاق منہاس ہو گا۔ مشتاق منہاس باغ سے الیکشن میں حصہ لیں گے اور ان کی جیت بھی یقینی ہو گی کیونکہ ان کے ہی حلقے کے موجودہ وزیر قمر الزمان اور دیگر بڑی بڑی ہستیوں کو پہلے ہی رام کر لیا گیا ہے۔ جبکہ مشتاق منہاس نے ابھی تک باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے البتہ وہ جلد مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کرنے کے بعد باقاعدہ انتخابی مہم بھی شروع کریں گے جو کہ برائے نام ہی ہو گی ۔ مشتاق منہاس کو وزیراعظم بننے کے لیے پہلے سے موجود مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر اور جنرل سیکرٹری راجہ فاروق حیدر اور شاہ غلام قادر کے سر سے گزر کر جانا ہے اور نواز شریف کے آشیرباد میں وہ یہ مرحلہ بھی باآسانی طے کر لیں گے۔ معروف صحافی جاوید چوہدری کے مطابق یہ سارا ثمر ان کو ماضی میں مسلم لیگ ن کے حق میں مشرف دور میں کھڑا ہونے پر ملا ہے اور نواز شریف کے تختہ اقتدار پر بیٹھنے کے بعد وہ مسلسل ان کے ساتھ ہیں اور بیرونی دوروں پر بھی ہمراہ ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس جب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انتخابات ہو رہے تھے تو آزادی پسند جماعت لبریشن فرنٹ اور دیگر نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اس وقت ریاست میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی کی حکومت ہے بھارت میں مرکزی حکومت بی جے پی کی تھی اگر آزاد کشمیر کا موازنہ بھارتی مقبوضہ کشمیر سے کیا جائے تو مرکزی حکومت کا سیاسی جماعتوں پر اتنا اثر رثوخ وہاں نہیں لگتا جتنا آزاد کشمیر میں ہے ۔ اس کی مثال گزشتہ کی پانچ سالہ حکومت کو لے سکتے ہیں جبکہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے کوئی امکانات نہیں تھے اس کے برعکس پیپلز پارٹی چونکہ پاکستان میں حکومت میں تھی اس لیے کشمیر میں بھی اسی کو حکومت ملی میرے آبائی حلقے ایل اے 23نیلم میں یہ حالت تھی کہ اگلے دن ساٹھ فیصد سے زیادہ ووٹ ایک اندازے کے مطابق مسلم لیگ ن کے امیدوار کو جانے تھے جبکہ نتائج بالکل اس کے برعکس رہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو ظلم و ستم اور جنگی جرائم کا مرتکب تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر جو پالیسی پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں ہے وہ سلاﺅ اور حکومت کرو والی ہے ۔ اور اب کی بار پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے حالات خواہ کیسے بھی ہوں حکومت بہرحال مسلم لیگ کی ہی ہو گی اب ذرا ماضی پر نظر گھماتے ہیں کہ کیا کیا ہوا تھا۔
۴ اکتوبر 1947کو مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے خلاف ایک باغی حکومت کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کا اس وقتی صدر غلام نبی گلگار انور نامی شخص تھا۔ 24اکتوبر 1947کو جب قبائلی حملہ کے بعد عملاََ مہاراجہ سے چھینا ہوا کشمیر کا علاقہ پاکستان کے قبضے میں آ گیا تو سردار ابراہیم کی قیادت میں نئی حکومت کا قیام پاکستان کی چھتر چھایہ میں عمل میں لایا گیا۔ اور اس کے بعد آزاد کشمیر میں بھی حکومت پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے خواہ وہ ملٹری ڈکٹیٹرز کی حکومت ہو یا سویلین جمہوریت۔ شروع میں یا تو مسلم کانفرنس آپسی معاملات طے کر کے کسی کو صدر بنا دیتی تھی یا پھر پاکستان کی ملٹری ڈکٹیٹر شپ ، مسلم کانفرنس کے یہ فیصلے بھی اسلام آباد سے ہوتے تھے ۔ جب پاکستان میں پیپلز پارٹی حکومت میں آئی اور پاکستان ٹوٹا تو اس وقت آزاد کشمیر میں بھی حکومت تبدیل کر دی گئی اور یہ کئی بار ہوئی ضیاءالحق کے دور میں آزاد کشمیر میں اپنی ایک حکومت اس کا صدر اور وزیراعظم موجود تھے جبکہ ریاست کی اپنی الگ سے سپریم کورٹ بھی موجود تھی جس کا سہرا مرحوم خورشید حسن خورشید کو جاتا ہے ۔ مگر ضیاءالحق نے آتے ہی پہلے برگیڈیئر حیات خان اور پھر میجر جنرل عبدالرحمن کو صدر آزاد کشمیر تعینات کیا ۔۔ یہ حالات ویسے ہی رہے ، ممتاز راٹھور، سردار سکندر حیات خان ، اور سلطان محمود چوہدری بھی انہی حالات میں آزادی کشمیر کے وزیر اعظیم بنے جبکہ مرحوم سردار عبدالقیوم خان اور ان کے بیٹے سردار عتیق احمد خان کو اس لحاظ سے خاص ملکہ حاصل ہے وہ نہ صرف ملٹری ڈکٹیٹر شپ میں حکومت کا مزا لوٹنے کے ماہر رہے بلکہ پاکستان میں جمہوری حکومت کا آشیر باد بھی حاصل کرتے رہے۔ مشرف دور میں آزاد کشمیر میں الیکشن ہوئے تو مسلم کانفرنس ہی برسر اقتدار آئی کیونکہ اس وقت پاکستان مین مسلم لیگ ق کی چہتی تھی ۔ مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 میں آئی تو آزاد کشمیر مین اس وقت مشرف کے چہتے سردار عتیق وزیراعظم تھے جن کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے جنوری 2009میں موجودہ صدر کو وزیر اعظم بنایا گیا جبکہ اکتوبر میں پھر ان کو تبدیل کر کے راجہ فاروق حیدر خان کو وزیراعظم بنا دیا گیا جو کہ جولائی 2010 تک رہے ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد چلی اور سردار عتیق کو بھولے ہوئے لوگ پھر ان کو ہار پہنانے لگے کیونکہ وہ زرداری کا اعتماد حاصل کر چکے تھے۔ 2011میں الیکشن ہوئے تو پاکستان کی شبعہ آزاد کشمیر پر پڑی اور پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی جو کہ اب تک موجود ہے اس دوران عدم اعتماد کی تحریک چلی مگر نواز شریف نے حمایت نہیں کی اس وجہ سے ناکام ہو گئی اس دوران فاروق حیدر اور سلطان محمود چوہدری دونوں پر تولتے رہے۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہو گا ۔
تاریخی سچائیاں یہی بیان کر رہی ہیں کہ عذاب کشمیر نام کا ”آزاد “ ہے یہاں عملا جی او سی مری اور لینٹ آفیسران کی حکومت ہے اور کشمیر کونسل بھی مزے لوٹ رہی ہے ۔ سابق وزیراعظم ممتاز راٹھور مرحوم کو اسی وجہ سے استعیفی دینا پڑا کیونکہ وہ پاکستان سے منگلا ڈیم کی رائیلٹی کی بات کر رہے تھے۔ سکندر حیات ایک مرتبہ پکار اٹھے تھے کہ میں جی او سی مری کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے تھک جاتا ہوں ۔ سابق وزیر اعظم اور موجودہ مسلم لیگ ن کے صدر فاروق حیدر بھی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں منگلا ڈیم کے سویچ بند کروانے چلے تھے خود اپنی وزارت عظمیٰ کی سویچ آف کروا بیٹھے۔ فاروق حیدری کی ہی حالیہ ویڈیو بھی بڑی مشہور رہی ہے۔ پھر حال ہی میں چوہدری مجید اور آئی جی کا واقعہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے جس سے آزاد کشمیر کے وزیراعظم صدر کے اختیارت کا تعین ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا جبکہ یہ معاشرے کے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ محقق کو یہ سمجھنے میں ضرور دشواری پیش آئے گی کہ یہ سب وطن فروشی ہے یا کہ قلت شعور۔
Load/Hide Comments