فائنینشل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے بیجنگ سے ہتھیار خریدتا رہا ہے جس کا آغاز 1965 میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کے تناظر میں امریکا کی جانب سے ہتھیاروں کی خریداری پر عائد پابندی کے بعد ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس پابندی کے بعد سے جب بھی اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی تعلقات خراب ہوئے تو پاکستان نے چینی ہتھیاروں کی خریداری میں اضافہ کیا۔چین نے 1990 اور 1980 کی دہائی میں پاکستان کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے سامان اور تکنیکی صلاحیت فراہم کی، جبکہ اس کے علاوہ چین نے 1990 کی ہی دہائی میں پاکستان کو 30 سے زائد ایم۔11 بیلسٹک میزائلوں کی فروخت سے امریکا کو چونکا دیا جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ایک دفاعی تجزیہ نگار جان گریویٹ کا کہنا تھا کہ گزشتہ دہائی میں چین نے پاکستان کے ساتھ شراکت داری کو وسیع پیمانے تک بڑھا دیا۔انہوں نے کہاکہ چین نے پاکستان کو 2010 کے بعد سے اے۔100 راکٹ لاؤنچرز اور ایچ کیو۔16 ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم فراہم کیے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وی ٹی۔4 ٹینک بھی فراہم کیے گئے جن کے تجربات اب بھی پاکستان میں جاری ہیں۔رپورٹ میں ان تین ہتھیاروں کا بھی ذکر کیا گیا جو چین کی نئی صلاحیت کی ضامن ہیں اور جس نے جنوبی ایشیا میں امریکی اثرو رسوخ کے لیے خطرہ کھڑا کردیا۔ان تین ہتھیاروں میں پہلا ہتھیار چین کے اشتراک سے تیار کردہ والا جے ایف ۔17 تھنڈر طیارہ شامل ہے، جس کی قیمت امریکی ایف۔16 سے انتہائی کم ہے، تاہم چین نے اس کا ڈیزائن پاکستان کو فراہم کردیا ہے جس کے بعد اسلام آباد ان ہتھیاروں کو نہ صرف اپنے ملک میں بنا رہا ہے بلکہ ان کی فروخت بھی کر رہا ہے۔دوسرا ہتھیار پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہونے والا ڈرون طیارہ ہے، جو چینی ڈرون طیارے سے مشابہت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ تیسرا ہتھیار وہ 8 آبدوزیں ہیں جو چین نے پاکستان کو ایف۔16 ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے کی منسوخی کے بعد 5 ارب ڈالر میں فروخت کیں تھیں اور یہ پاکستان کی تاریخ میں فوجی ہتھیاروں کی درآمد کی اب تک کی سب سے بڑی ڈیل تھی۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments