کارگل کی جنگ میں پاکستانی فوج کے مٹھی بھر شیر دل جوانوں نے ہزاروں کی تعداد میں بھارتی سورماوں کو ابدی نیند سلاکر عسکری تاریخ کے انمٹ نقوش رقم کئے تھے۔ ان میں جواں سال کپٹن رومیل اکرم بھی تھے جنہوں نے 1999ءکی کارگل کی ایک ایک چھوٹی مگر اہم ترین پوسٹ پر اپنے بائیس جوانوں کے ساتھ دشمن کو ناکوں چنے چبھوا دئے تھے۔
کپٹن رومیل اکرم کا بھارتی فوج کی ایک بٹالین کے ساتھ سخت ترین معرکہ ہوا ہے ۔اللہ تعالٰی نے انہیں شہادت کی جگہ غازی کا رتبہ عطا فرمایا جبکہ زخموں سے چور ہونے والے کپٹن رومیل اکرم پر وہ وقت بھی آیا تھا جب وہ بھاری پتھر کی اوٹ میں خون میں لت پت کہہ رہے تھے ” اے اللہ میں شہید کیوں نہیں ہورہا ،میری جان کیوں نہیں نکل رہی“ لیکن اللہ کو اپنے اس شیر کو ابھی زندہ رہ کر اسلام کے دشمنوں کے ناپاک قدموں کو پاک سرزمین سے دور بھگانا تھا ۔کپٹن رومیل اکرم کارگل کی جنگ کے وہ حقیقی ہیرو ہیں جو غازی بن کر لوٹے اور آج پولیس میں ایس ایس پی کے عہدے پر پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔فوج سے پولیس تک انکی زندگی کا یہ سفر کیسے رونما ہوا ،کارگل کے محاذ پر انہوں نے کیا معرکہ انجام دیا کہ آج تک پاک فوج میں انکی بہادری کی مثالیں دی جاتی ہےں اور دشمن پاک فوج کے اس کپتان کو یاد کرکے اپنے زخم تازہ کرتے ہیں ۔ہم سب کو اس بارے لازمی جاننا چاہئے کہ بہادری اور فرض شناسی دراصل ہوتی کیا ہے۔اس روز کپٹن رومیل اکرم اپنے بینکر سے باہر پہاڑوں میں دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لے رہے تھے کہ آناً فاناً دشمن نے بھاری توپ خانہ سے فائر کھول دیا جس کے نتیجہ مین انکے چھ ساتھی شہید اور باقی زخمی ہوگئے۔ان کی گنیں خاموش ہوگئیں کیونکہ گنوں پر بیٹھے مجاہد شہاد ت کے رتبوں پر فائز ہوچکے تھے۔کپٹن رومیل اکرم نے اسلحہ کا جائزہ لیا جو مسلسل استعمال ہونے کے بعد اب صفا¾ی کا متقاضی تھا ۔کیپٹن رومیل اکرم نے غور کیا کہ دوسری جانب کم و بیش چھ سو کے قریب دشمن جارحانہ طور پر آگے بڑھتا چلا آرہا تھا ۔ان میں بھارتی فوج کے خطرناک سنائپرز بھی موجود تھے جو تاک تاک کر پاکستانی فوج کی پوسٹ پر فائر کررہے تھے اور انکی گولیوں نے کئی جوانوں کے سینے چاٹ لئے تھے۔کپٹن رومیل اکرم کی نگاہ اس دوران راکٹ لانچر پر پڑی۔راکٹ لانچر چلانے والا سپاہی شہید ہوچکا تھا ۔انہوں نے ایک بڑے پتھر کی آڑ لیکر جب پہلا راکٹ چلایا تو دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔وہ پتھروں کی آڑ میں دبک گئے لیکن وہ اندھا دھند فائر مارتے رہے۔کپٹن رومیل اکرم نے ابھی چند راکٹ ہی فائر کئے تھے کہ بھارتی فوجیوں میں کھلبلی مچ گئی۔
اس اثنا میں ایک بھارتی سنائپر نے ان پر فائر کھول دیا ،گولی پتھر پر لگی اور پتھر کا ٹکڑا برق کی رفتار سے اڑ کر انکے سر پر لگااور خون کے فوارے ابل پڑے۔وہ پتھر کے پیچھے لیٹ گئے اور چند منٹ بعد رینگتے ہوئے دوسرے پتھر کے پیچھے گئے اور دوبارہ راکٹ فائر کیا ۔ان کی آرپی جی سے راکٹ کیا نکلا دشمن کی اگلی صفوں میں ریکی کرنے والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔اس لمحہ ایک بھارتی سنائپر نے پھرفائر مارا ۔اس بار دشمن کی گولی کیپٹن رومیل اکرم کے ہونٹوں کو چیرتی ہوئی بائیں جانب سے آنکھ سے ایک انچ پرے جبڑے کو پھاڑتی گزر گئی ،وہ نیچے گر گئے ۔راکٹ لانچر ابھی تک انکے ہاتھ میں تھا۔ان پر نیم بے ہوشی کا غلبہ ہوا اور انہیں یقین ہوگیا کہ ان کی ازلی آرزووں کا وقت پورا ہونے والا ہے۔خون زاروقطار بہہ رہا تھا ۔درد کی شدید ترین لہر نے ان کا دل جکڑ لیا تھا ۔بولے” اے اللہ میں شہید کیوں نہیں ہورہا ،میری جان کیوں نہیں نکل رہی“ ۔۔۔اس لمحہ ان کے کانوں میں انکے سی او کی آواز پڑی۔”رومیل واپس آجاو“
کیپٹن رومیل نے آنکھیں کھولیں ،کچھ فاصلے پر بینکر تھا ۔وہ رینگتے ہوئے بینکر میں گئے۔دشمن متواتر فائر کھولے جارہا تھا ۔ انہوں نے فیلڈفرسٹ ایڈ سے ڈریسنگ کی تو ان کا خون بہنا رک گیا لیکن ایک آنکھ سے دیکھنا مشکل ہورہا تھا۔بچے کھچے جوانوں نے چاہا کہ وہ رک جائیں اور آگے نہ بڑھیں ۔سی او نے انہیں ہدایت کی کہ آگے بڑھ کر ابھی فائر نہ کھولنا ،کمک پہنچ لینے دو۔
کیپٹن رومیل اکرم بولے” دشمن اتنا وقت نہیں دے گا سر،جب تک جان ہے دشمن کو معلوم رہنا چاہئے کہ پوسٹ خالی نہیں ہے ۔اللہ نے چاہا تو میں انکو اب مزید آگے نہیں بڑھنے دوں گا “
یہ بھی پاک فوج کے افسروں کی شان ہے کہ وہ اپنے جونئیرز کے ساتھ اگلے مورچوں پر موجود ہوتے ہیں۔پاک فوج کے سی اوعزم و شجاعت کے کھیل میں بھارتی فوجی افسروں کی طرح نہیں ہوتے جو انہیں تنہا چھوڑ جاتے ہیں ۔پاک فوج کے افسر چھوٹی سی چوٹی پوسٹ پر بھی موجود ہوتے ہیں ۔
کیپٹن رومیل اکرم کا چہرہ خون سے لت پت تھا،راکٹ لانچر کسی اور کو چلانا نہیں آتا تھا ۔انہوں نے دوبارہ اپنی پوزیشن لی اور پھر جگہیں بدل بدل کر دشمن پر اس تواتر سے راکٹ مارے کہ دشمن کا توپ خانہ خاموش ہوگیا ۔سنائپر بھاگ اٹھے اور ان کے آگے بڑھتے ہوئے قدم پتھروں اور کھائیوں میں انکے ساتھیوں کی لاشوں سے ٹکراتے رہے ،وہ بھاگتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو روندتے رہے لیکن کیپٹن رومیل اکرم کے لانچر سے نکلنے والے راکٹ پہاڑوں کو کرچیوں کی طرح اڑا دیتے جو بکھتیں تو ان کی زد میں آنے والے دشمن خون میں نہا جاتے۔ایک راکٹ لانچر نے ان کے بھاری توپ خانے اور سنائپرز کو مٹی چاٹنے پر مجبور کردیا تھا ۔کیپٹن رومیل اکرم کوشدید ترین نازک حالت میں واپس لایا گیا۔انکے چہرے پر گولی کا وہ گہرا نشان آج بھی واضح ہے،جسے وہ پیار سے سہلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے جسم کا سب سے خوبصورت ترین حصہ یہ ہے۔
کیپٹن رومیل اکرم نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سول سروس کا امتحان دیا اور پولیس میں بھرتی ہوگئے ۔وہ اے آئی جی پولیس بھی رہے ،ان دنوں سپیشل برانچ میں ایس ایس پی کے عہدے پر اپنی قومی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں،فوج میں انکی بہادری کے قصے عام ہیں تو پولیس بھی ان کی فرض شناسی پر نازکرتی ہے۔ان کا قومی و ملّی جذبہ ابھی تک جواں ہے
Load/Hide Comments