جب کسی مجرم کوسزائے موت سنائی جاتی ہے تب جج جس قلم سے سزائے موت کا فیصلہ جاری کرتا ہے اس کی نب کوتوڑدیتا ہے. بہت سے لوگ اس بارے میں جانتے ضرورہیں لیکن یہ سوال سالہاسال سے لوگوں کے دماغ میں گھوم رہا ہے کہ جج آخرقلم کی نب کوکیوں توڑدیتا ہے.لیکن اب اس حوالے سے کئی نظریات منظرعام پرآرہے ہیں جن کی مدد سے اس عدلیہ کی اس رسم کی اصل وجوہات جانی جا سکتی ہیں. ایک نظریے کے مطابق جج اس قلم کی نب کواس لیے توڑ دیتا ہے تاکہ اس قلم سے دوبارہ کوئی فیصلہ صادرنہ کیا جاسکے. کسی کوسزائے موت دینے کا عمل یا کسی کی جان لینے کے عمل کو بزاتِ خود ایک غیرمقدس عمل تصورکیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قلم کی پاکیزگی اوروقارختم ہوجاتا ہے. اس لیے قلم کو توڑدیا جاتا ہے.لیکن یہ اس عمل کا واحد نظریہ نہیں ہے کیونکہ ایک اورنظریے کے مطابق قلم کی نب اس لیے توڑدی جاتی ہے کہ ایک بارفیصلہ ہوجانے کے بعد کوئی بھی اس کو تبدیل نہیں کرسکتا سمیت اس جج کے جس نے فیصلہ لکھا ہو. جب سزائے موت کا اعلان ہوجاتا ہے تو اسے حتمی تصورکیا جاتا ہے اورکوئی اس پرسوال نہیں اٹھا سکتا. صرف اعلیٰ عدالت ہی اس فیصلہ پرنظرثانی کرسکتی ہے.سزائے موت سنائے جانے کے بعد قلم کی نب توڑنے کی ایک اوروجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جج ایسا اپنے احساسِ جرم کی وجہ سے کرتا ہے. کسی کی جان لینے کی طاقت صرف خدا کے پاس ہے اورایک انسان ہونے کے ناتے وہ صرف اپنا سرکاری فرض اداکررہا ہے. اس لیے پین کی نب توڑکروہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ کسی کی جان نہیں لے رہا بلکہ صرف اپنا سرکاری فرض ادا کررہا ہے.
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments