سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح سے متعلق 13 درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ ٹارنی جنرل کو مقدمات کے لیے نوٹس جاری کیا تھا، وہ عدالت میں موجود کیوں نہیں؟۔پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے مذکورہ درخواستوں پر سماعت کی ۔سماعت
کے آغاز پرایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ وہ اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کی غیر حاضری کے حوالے سے تحریری جواب جمع کرانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل خود کدھر ہیں ٗوقت دینے کے باوجود وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کے جنازے کیلئے لاہور میں ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل ہماری اجازت کے بغیر لاہور کیوں گئے؟ ان پر 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عاصمہ جہانگیر کی وفات کا بہت صدمہ ہے ٗیہ ایک افسوسناک سانحہ ہے ٗ لیکن کسی کے چلے جانے سے کام رْک نہیں جاتے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کا آگاہ کیا کہ کل اٹارنی جنرل بیرون ملک جارہے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وہ گھومنے پھر نے جارہے ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل کیسز کے سلسلے میں بیرون ملک جارہے ہیں۔جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکسدیئے کہ یہ کوئی اہم کیسز نہیں ٗہم ان کی عام چھٹیوں کی درخواست مسترد کرتے ہیں جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے بات کرتا ہوں ٗوہ ساڑھے 4 بجے تک عدالت میں حاضر ہوجائیں گے، آپ 10 ہزار روپے جرمانے والا حکم واپس لے لیں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے ٗ آپ انہیں بلالیں آج ہم ساڑھے 4 بجے انہیں سنیں گے ٗیہ اہم کیس ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم آج اٹارنی جنرل کا انتظار کریں گے ٗوہخود پیش ہوکر مقدمے میں دلائل دیں۔جس کے بعد سماعت میں شام ساڑھے 4 بجے تک کا وقفہ کردیا گیا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنےوالوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے ٗتاہم واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیلئے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔6 فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں ٗوہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔