ایران کے راہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایران کو انٹرنیٹ کی وجہ سے درپیش چیلنج کے معاملے پر غور کرنے کے لیے سائبر سپیس کے ماہرین سے ملاقات کی ہے۔یہ بات ایران کی شوریٰ نگہبان کے سربراہ کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔آیت اللہ احمد جنتی نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ ملاقات کب ہوئی لیکن ایران کے کئی عہدیدار گزشتہ سال دسمبر اور رواں سال جنوری میں ملک میں ہونے والے مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام سوشل میڈیا پر عائد کرتے ہیں۔ان مظاہروں پر قابو پانے کی کارروائی کے دوران موبائل فون کے استعمال اور مختلف ایپ پر مختلف طرح کی پابندیاں عائد کر کے متعدد شہروں میں ہونے والے مظاہروں پر قابو پایا گیا۔سخت گیر موقف کی حامی تسنیم نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنتی نے انٹرنیٹ کو ایران کے لیے “درد سر” قرار دیا جہاں حکام کی طرف سے خبروں اور معلومات فراہم کرنے والی کئی ویب سائٹس اور غیر ملکی ٹی وی اور ریڈیو نشریات کو بند کرنا ایک معمول کی کارروائی ہے۔ایران کے نگرانی ادارے جس کی قیادت 90سالہ جنتی کرتے ہیں، کو آئین کی تشریح کرنے، مجوزہ قانون سازی کا جائزہ لینے اور انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی چانچ کے اختیارات حاصل ہیں۔جنتی نے اس طرح بھی اشارہ کیا کہ سائبر سپیس کی طرف سے درپیش خطرے سے نمٹنے کے لیے اقدام لینے ضروری ہیں۔جنتی نے مزید کہا کہ “میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اسے مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔۔یہ ناممکن ہے لیکن ہمیں اسے محدود کرنا ہو گا۔”انہوں یہ بات کرتے ہوئے چین اور جاپان میں انٹرنیٹ کی رسائی کو محدود کرنے کی کوششوں کا بھی ذکر کیا تاہم فوری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ جاپان میں کیے گئے کونسے اقدام کا وہ ذکر کر رہے تھے ایرانی عہدیدار ماضی میں اس حوالے سے کئی اقدام پر غور کرتے رہے ہیں جن میں مقامی طور پر انٹرنیٹ کے نظام کو تشکیل دینے کے بات بھی شامل تھی۔ایران نے تصاویر پوسٹ کرنے کی ایپ انسٹاگرام کو مظاہرے شروع ہونے کے ابتدائی دنوں میں بند کردی تھی اور خامنہ ای نے الزام عائد کیا تھا کہ ان مظاہروں کے پیچھے “غیر ملکی دشمن” ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ مظاہروں میں شرکت کرنے والے سیکڑوں ایرانی زیر حراست ہیں اور یہ مظاہرے 2009ء کے متنازع صدارتی انتخاب کے بعد ہونے مظاہروں کے بعد سب سے بڑے تھے۔امریکہ کے محکمہ خزانہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے 12جنوری کو 14 ایرانی افراد اور تنظیموں پر تعزیرات عائد کی تھیں جو “انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں”، سنسر شپ اور غیر جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں مبینہ طور پر ملوث تھیں۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments