پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ایک قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کے واقعے میں ملوث پولیس افسر راؤ انوار کو بیرونِ ملک جانے کوشش کے دوران طیارے سے اتار لیا گیا ہے۔وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے مطابق کراچی پولیس کے ایس ایس پی راؤ انوار اسلام آباد ہوائی اڈے سے ایک بین الاقوامی پرواز کے ذریعے دبئی جا رہے تھے کہ اُنھیں پیر کی صبح طیارے سے اتار لیا گیا۔واضح رہے کہ کراچی میں ایک قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود گزشتہ ہفتے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا جس کا الزام راؤ انوار پر ہے۔نقیب اللہ کے قتل کے بعد راؤ انوار کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور پولیس کی ایک تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔تحقیقاتی کمیٹی نے پیر کو راؤ انوار کو تحقیقات کے لیے طلب کیا تھا تاہم اُنھوں نے اس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کرتے ہوئے اطلاعات کے مطابق کہا تھا کہ اُنھیں کمیٹی سے انصاف کی توقع نہیں اس لیے وہ اس کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔راؤ انوار نے 13 جنوری کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں چار مبینہ دہشت گردوں کو شاہ لطیف کے علاقے میں ایک پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں نسیم اللہ عرف نقیب اللہ بھی شامل تھا۔مقتول کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ نقیب اللہ 3 جنوری کو سہراب گوٹھ کے علاقے سے لاپتا ہوا جسے بعد ازاں’ جعلی پولیس مقابلے’ میں قتل کر دیا گیا۔نقیب اللہ کے قتل کی خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد نہ صرف سماجی میڈیا پر اس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی بلکہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ سول سوسائٹی کی طرف سے بھی اس معاملے کی غیر جانب دارانہ تحققات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔گزشتہ ہفتے پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی نقیب اللہ محسود کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکت کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبہ سندھ کی پولیس کے سربراہ سے سات دن کے اندر رپورٹ طلب کی تھی۔ستائیس سالہ نقیب اللہ کا تعلق ملک کے قبائلی علاقے جنوبی وزیر ستان سے تھا، اور راؤ انوار کا دعویٰ ہے کہ نقیب اللہ کا تعلق بعض شدت پسندوں سے تھا۔لیکن نقیب اللہ کے خاندان کے افراد اور بعض دوست اس کے دہشت گردوں سے مبینہ تعلق کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔نقیب اللہ کے مبینہ قتل کے واقعے کی بازگشت گزشتہ ہفتے پاکستان کی پارلیمان کی ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی جہاں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے وزارت برائے انسانی حقوق سے اس واقعے پر رپورٹ طلب کی ہے۔0000حالیہ برسوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکڑوں مبینہ دہشت گردوں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیمیں ان میں سے زیادہ تر واقعات کو ‘جعلی پولیس مقابلے‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مکمل چھان بین کا مطالبہ کرتی آئی ہیں تاکہ حقائق کو سامنے لایا جا سکے۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments