اسے ریاست جموں کشمیر کی خوش قسمتی کہہ لیں یا پھر بدقسمتی کہ 1947 کے بعد کئی لوگوں نے اس پر حق جمانے ، حق جتانے یا پھر مالک (Own) بننے کی کوشش کی۔ جماعت اسلامی پاکستان اس میں سر فہرست رہی ہے اور آج بھی جماعت اسلامی کی ستر فیصد سیاست کشمیر کے گرد گھومتی ہے کراچی سے لے کر تاؤ بٹ (پاکستانی زیر انتظام ریاست جموں کشمیر) تک جماعت اسلامی کا ایک ہی نعرہ ہے اور ستر سال سے اس نعرے پر کاربند ہے حالانکہ اس سارے عرصہ میں شاید ایک آدھ سیٹ ہی کشمیر میں اس کو ملی ہے وگرنہ ہر دفعہ اتحاد (Allience) ہی میں رہتی ہے۔
اسی کے عشرے میں جب پوری دنیا کی توجہ افغانستان پر تھی اورپھر سوویت یونین افغانستان سے بھاگ گئی تو افغانستان میں امریکہ کے تعاون سے بننے والے مسلح جتھے فارغ ہو گئے ان کے پاس کوئی کام نہ بچا ، ان کی کھیپ بہت زیادہ تھی ان کا کام دن پر کاشنکوف اور دیگر انسانیت کش بندوقیں صاف کرنا، بھنے ہوئے چنے، کھجوریں کھانا ، اور ورزشیں کرنا رہ گیا ۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا ’’سرخ سامراج ‘‘اپنے گھر واپس لوٹ گیااس لیے ان کے پاس بھی اب کام کاج کچھ نہ بچا۔ اس زمانے میں ریاست جموں کشمیر کا مسئلہ بھی اس نفسیاتی کشمکش کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ابھر رہا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے اندرونی سیاسی حالات کافی خراب ہو رہے تھے ریاست کے طول و عرض میں بے چینی کی لہر محسوس کی جارہی تھی یعنی لوہا گرم تھا۔
1989 میں لبریشن فرنٹ سے مسلح تحریک کا اعلان کروایا گیا تو افغانستان میں موجود یہ ساری کھیپ جو اب فارغ البال تھی کام کاج سے فارغ تھی مگر چونکہ بندوق چلانے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں آتا تھا اس لیے فاقوں کے خوف میں جی رہی تھی۔ مسلح تحریک کے اعلان کے ساتھ ہی درجنوں ’’مسلح دھڑے‘‘ وجود میں آ گئے ، ان میں سے صرف لبریشن فرنٹ کو چھوڑ کر سب دھڑے پاکستان اور خصوصا پنجاب سے تعلق رکھتے تھے جن میں حرکت المجاہدین، جیش محمد،سپاہ صحابہ اور لشکر طیبہ سر فہرست تھے۔
میری سمجھ بوجھ کے اولین ایام میں ان سے بہت قربت رہی خصوصا لشکر طیبہ سے کیونکہ مجھے اسی مدرسے میں قرآن کا ناظرہ پڑھنے کے لیے داخل کیا گیا جو لشکر طیبہ کی زیر کفالت تھا اور ہمارے سکول سے ملحقہ تھا۔ ’’رسس‘‘ کے وقت میں بھی ہم وہیں چلے جاتے تھے اور ان لوگوں پر رشک کرتے تھے جن کے لمبے چوڑے سینے ہوتے تھے لمبی لمبی داڑھیاں ہوتی تھیں اور ہمارے خیال میں جن کی عزت و احترام معاشرے میں سب سے زیادہ تھی۔ کلاشن کوف کو کھولنا بند کرنا اور چلانا زبانی سیکھتے تھے۔ وہاں جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بنھے ہوئے چنے، اعلی قسم کی کھجور، پلاؤ، پھل، گائے بکرے اور خرگوش کا گوشت کھانے کو مل جاتا تھا۔ واضح رہے کہ شاہرہ نیلم اس وقت مکمل طور پر بند ہوتی تھی اور ہر وقت فائرنگ کی زد میں رہتی تھی ۔ اس زمانے میں ایک مشہور شعر ہوتا تھا۔
ہمیں دنیا سے کیا لینا ، شہادت ہے مشن اپنا
پہاڑوں پر دفن ہو گے، برف ہو گی کفن اپنا
مجھے یاد ہے ایک دن ایک لڑکا کیمپ میں آیا کافی چوڑا سینہ اور لمبا قد تھا کچھ دن بعد پتا چلا کہ اس کی ’’شہادت‘‘ ہو گئی ہے سیز فائر لائن پار کرتے ہوئے۔ جب مشرف نے مارشل لاء لگایا تو ہم بہت چھوٹے تھے اس کے کچھ ہی عرصے بعد مارشل لاء کے اثرات وہاں بھی پہنچے تو دیواروں سے ’’لشکر طیبہ‘‘ کا نام مٹنے لگا اور کچھ عرصے بعد بالکل ہی مٹ گیا اور کیمپ ختم ہو گئے۔ رفتہ رفتہ یہ نام یاد ماضی بن گیا اور اس کی جگہ جماعۃ الدعوۃ نے لے لی ۔ ہمارے گھر میں ہر ماہ مجلہ آیا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہم اس کو تواتر سے پڑھتے تھے غالبا اسی زمانے سے حافظ صاحب کا نام ذہن نشین ہو گیا تھا کیونکہ پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب کے کالم پڑھنے کے ملتے تھے۔ حافظ صاحب کے کالم قلب و روح کو گرما دیتے تھے اور جسم کو شہادت پر مائل کرتے تھے ہر ماہ کے مجلہ میں درجنوں ’’فدائین‘ ‘ کی شہادت کی خبر کے ساتھ ساتھ ’’سینکڑوں ‘‘ بھارتی فوجوں کے واصل جہنم ہونے کی خبریں رنگین تصاویر کے ساتھ لگی ہوتی ہیں جبکہ ’’فدائین‘‘ کا اپنے گھر والوں ،خصوصا ماں، بہن کے نام خطوط لکھے ہوتے تھے جس میں شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والے فدائین انہیں صبر کی تلقین کرتے تھے اور چھوٹے بھائیں کو جہاد پر بھیجنے کی ترغیبات دی گئی ہوتی تھیں۔ یہ سلسلہ زلزلہ 2005 تک چلتا رہا تھا۔
جب لشکر طیبہ پر پابندی لگی تو اس کی جگہ ’’جماعۃ الدعوۃ ‘‘ نے لے لی تھی جو لگ پہلے ’’لشکر طیبہ ‘‘ کے عہدیدار یا ذمہ دار تھے اب وہ جماعۃ الدعوۃ کے ہو گئے تھے۔ فرق صرف نام کا آیا تھا پھر رفتہ رفتہ ان کی وہ سرگرمیاں محدود ہوتی گئیں اور نئی طرز کی سرگرمیاں شروع ہو گئیں ۔ حرکت المجاہدین اور جیش محمد کا نام پہلے سے کم ہو گیا اور پھر وہ کسی اور ہی پردے میں گم ہو گئیں مگر جماعۃ الدعوۃ ریاست کے اندر اپنی سرگرمیاں جاری و ساری رکھیں۔
بمبئی حملوں کے بعد مظفرآباد میں موجود کیمپ کو بموں سے اڑایا گیا جس میں کسی بھی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا مگر اس کے بعد یہ سرگرمیاں کھلے عام بند ہو گئیں اور نئی نوعیت اختیار کر لی جس کے بارے میں آزاد کشمیر کا کوئی بھی نیشنلسٹ جانتا ہو گا ۔ مگر اس سب میں پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب کا کوئی بھی ہاتھ تو نہیں ہے۔
جماعت اسلامی اور جماعۃ الدعوۃ دونوں ہی کشمیر میں پاکستان کے حق میں راہیں ہموار کرنے اور مسلح جدوجہد کے حق میں ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ جماعت اسلامی کچھ حد تک سیاسی وضع قطع بھی رکھتی ہے جبکہ جماعۃ الدعوۃ نے خود کو بظاہر امدادی کاموں تک محدود کیا ہوا ہے۔ بھارت ممبئی حملوں سے ہی حافظ سعید کی گرفتاری بلکہ ان پر بھارت میں لے جا کر مقدمہ چلانے کا کہہ رہا ہے جبکہ امریکہ کا دباؤ بھی رہا ہے مگر پاکستان ہمیشہ اس سے انکار کرتا رہا ہے اب راتوں رات جماعۃ الدعوۃ پر پابندی اور حافظ صاحب کو نظر بند کر نا ذو معنی ہے جبکہ حافظ صاحب تو بالکل امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی طرح معصوم ہیں انہوں نے کبھی بندوق نہیں اٹھائی ۔
لیکن جب بات ریاست جموں کشمیر ، اس کی قومی آزادی ، الحاق پسندوں اور خود مختاری کی آتی ہے تو پھر بہت سے منہ ایسے کھلتے ہیں جو کشمیریوں کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ آج کل کراچی سے کشمیر تک ایک نئی جماعت کے بینراور پرچم آویزاں ہیں جن پر کشمیریوں سے رشتہ داری شروع کی جا چکی ہے جماعت کا نام ’’تحریک آزادی جموں کشمیر‘‘ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جماعت کا کشمیریوں کا ساتھ کیا تعلق ہے کہیں یہ بھی ایک ہی سکے کا کوئی نیا رخ تو نہیں ہے
Load/Hide Comments