(تحریر: شفقت راجہ۔ برطانیہ)
تیمور ( ٹیمور) مجموعی طور پر جنوب مشرقی ایشیاء کا ایک جزیرہ ہے جس پر سولہویں صدی کے دوسرے عشرے میں پرتگال نے اپنے سامراجی قدم رکھنے شروع کئے تھے۔ سترھویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہالینڈ نے بھی تیمور کے مغربی حصے پر تجارتی سیربینی کا آغاز کیا۔ پرتگال اور ہالینڈ پورے جزیرہ تیمور پر قبضے کیلئے ایک مدت تک ایک دوسرے کے سامنے رہے اور آخرکار1859میں ایک امن معاہدہ کے تحت اسے مشرقی تیمور (پرتگالی) اور مغربی تیمور(ہالینڈ) میں تقسیم کر دیا گیا تاہم1912تک سرحدی تنازعہ برقرار رہا ۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے جزیرہ تیمور پر قبضہ کر لیا تھا تاہم مجموعی طور پر شکست کے بعد جاپان کو تیمور سے بھی نکلنا پڑا اور مشرقی و مغربی تیمور دونوں کی جنگ سے پہلے ہی کی نوآبادیاتی حیثیت بحال رہی۔ 1949میں ہالیینڈ نے انڈونیشیا کو آزادی دی تو مغربی تیمور انڈونیشیا کا حصہ بن گیا جبکہ مشرقی تیمور1974-75 کے پرتگالی انقلاب اور پرتگالی نوآبادیات کے خاتمے کے اعلان تک پرتگالی کالونی رہا ۔ 1976میں انڈونیشیا نے مشرقی تیمور پر قبضہ کر لیا تاہم وہاں مزاحمت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیاجسے ایک طرف ایسٹ تیمور گوریلہ فورس نے مسلح جدوجہد کی شکل دی تو دوسری طرف انڈونیشیائی فوج نے اس تحریک کو سختی سے کچلنے کیلئے لامحدود طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں مشرقی تیموری باشندوں کو جانی، مالی اور جلاوطنی جیسی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی لیکن انہوں نے ریاستی استبداد کے خلاف اپنیّ زادی کی تحریک کو جاری رکھا جسے 1991میں مشرقی تیمور کے مرکزی شہر سانٹا کروزدلی کے ایک مظاہرے پر انڈونیشیائی فوج کی فائرنگ میں ڈھائی سو افرادکی ہلاکت نے مہمیز کر دیا اور اس تحریک آزادی میں شدت آگئی جسے پرتگال کی مضبوط وکالت کے ذریعے آسٹریلیا و امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے بھی حمایت حاصل ہونے لگی ۔ 1997میں انڈونیشیا کے اپنے سیاسی اور معاشی حالات میں شدید منفی اثرات نمایاں ہوئے اور حکومت مخالف سیاسی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو مئی 1998میں اپنی شدت کیساتھ صدر سوہارتو کے استعفیٰ پر منتج ہوا۔ جس کے بعد اقوام متحدہ کی معاونت سے پرتگال اور انڈونیشیا کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا کہ اگست1999میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مشرقی تیمور میں ایک غیر جانبدار حق رائے دہی (ریفرنڈم) کے ذریعے مشرقی تیموری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرینگے۔ چنانچہ مذکورہ ریفرنڈم میں عوام نے کثرت رائے سے خودمختاری کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور مشرقی تیمور کا اختیار اقوام متحدہ کی امن فوج نے سنبھال لیا۔ اگست2001میں مشرقی تیمور کی دستورساز اسمبلی کا انتخاب ہوا جس نے مارچ 2002 میں ریاستی آئین منظور کیا اور خود پارلیمانی اسمبلی میں ڈھل گئی اور مئی2002میں نئے ریاستی آئین کو نافذ کر دیا گیا جس کے تحت باغی رہنما ژنانہ گوسماو پہلے صدر منتخب ہوئے اور ستمبر2002 میں اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرتے ہوئے مشرقی تیمور ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔
اب آئیے ریاست جموں وکشمیر کی طرف جو1947تک برصغیر پر ایسے ہی نوآبادیاتی قبضے اور اسکے زوال کا شاخسانہ ہے۔ یہاں متنازعہ و منقسم ریاست کے مختلف خطوں کی ہزار ہاہ سالہ تاریخ کے سیاہ و سفید ابواب میں جائے بغیر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ برصغیر کی شمالی سرحد پر واقعہ خطوں کشمیر، جموں، لداخ وگلگت پر مشتمل ایک مرکزی سیاسی و انتظامی اکائی یعنی ریاست جموں کشمیر و لداخ تبت ہاہ کی تخلیق میں نوآبادیاتی نظام کی پروردہ سامراجی طاقتوں کے سیاسی کھیل کا مرکزی کردار شامل رہا ہے۔ 1846کی سکھ انگریز جنگ میں سکھوں کی شکست پر ڈیڑھ کڑوڑ تاوان جنگ کے عوض معاہدہ لاہور میں سکھ لاہور دربار کے برائے راست زیر حکومت خطے کشمیر، ہزارہ اور ملحقہ کوہستانی علاقے انگریز سرکار کے زیر اختیار قرار پائے جنہیں جموں کے حکمران گلاب سنگھ کی طرف سے 75لاکھ روپے نانک شاہی تاوان جنگ کی ادائیگی کی آمادگی پر معاہدہ امرتسر (16مارچ 1846 ) کے تحت جموں ریاست کا حصہ بنایا گیا اور برطانیہ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کراتے ہوئے ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی۔ معاہدہ امرتسر میں دوطرفہ مفادات کا پورا خیال رکھا گیا ہے ۔ اول تو انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی سرکار کو مالی فائدہ حاصل ہوا، دوم ڈوگرہ گلاب سنگھ کے قدرے مختارراج کو زمینی وسعت ملی، سوم یہ کہ شمالی دورافتادہ شورش زدہ پہاڑی اوربرفانی خطوں میں برطانوی فوج الجھائے بغیرتوسیع پسندسامراجی قوتوں یعنی برطانیہ اور روس کے درمیان حائلی ریاست(بفرسٹیٹ) اور اس پر حکومت کرنے والا ایک طاقتور اتحادی حکمران گلاب سنگھ بھی مل گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعدبرصغیر سمیت دنیا بھر کی محکوم اقوام میں سیاسی شعور نے نئی کروٹ لی اور وہ حقوق کیلئے آواز اٹھانے لگے دوسری جانب توسیع پسند سامراجی سلطنتوں کو بھی سیاسی و معاشی بدحالی نے گھیرا تو انہوں نے دنیا کے مختلف خطوں سے بوریا بستر سمیٹنا شروع کر لیا۔ جیسے ( (1949 ہالینڈ نے انڈونیشیا(بشمول مغربی تیمور) کو آزادی دی تو پرتگال نے بھی مشرقی تیمور کو عدم توجہی میں رکھ دیاتھا۔ برصغیر کی سیاسی تحریک میں مذہب نے اپنا رنگ جمایا تو انگریز بہادر نے رخصتی سے پہلے قانون آزادی ہند 1947(آرٹیکل ۱)کے تحت برطانوی ہند دو قومی نظریہ (مذہبی) بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت نامی دو نئی وفاقی ریاستوں کی تخلیق کا منصوبہ بنایا۔ مذکورہ قانون کے آرٹیکل سات(7) کے مطابق 15اگست 1947کو ( ساڑھے پانچ سو سے زائد مقامی) ہندوستانی ریاستوں سے تاج برطانیہ کی حاکمیت اعلیٰ کا خاتمہ ہو جائیگا یعنی تکنیکی لحاظ سے وہ تما م ریاستیں خودمختار ہونگی( اور ریاستی مستقبل کے تعین کا اختیار ریاستی حکمرانوں کو حاصل ہوگا)۔ ریاست جموں کشمیر (بشمول لداخ و گلگت) چونکہ کثیر المذہبی اور کثیرالثقافتی گروہوں پر مشتمل تھی لہذا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے وقتی طور جوں کی توں خودمختار حیثیت (Standsill)کو بحال رکھنے کا عندیہ دیا جسے پاکستان نے قبول کر لیا تھا جبکہ بھارت کی طرف سے التوا میں رکھا گیا۔ 22اکتوبر 1947کو اچانک ایک بڑے قبائلی حملے نے ریاست کو تاراج کیا تو ہری سنگھ کو 26 اکتوبر 1947کو بھارت سے(دفاع، خارجہ و مواصلات امور پر) مشروط الحاق کرنا پڑا ۔ بھارتی افواج ریاست میں امن کی بحالی کیلئے ایسے آئی کہ پھر ریاست کا امن خواب بن کر رہ گیا۔ یکم جنوری 1948کو بھارت اپنی شکایت اقوام متحدہ کے چارٹر 34,35(جنگ اور عالمی امن کی تباہی کے خدشات) کے تحت داخل کرتا ہے اور یہیں سے اس مسئلہ کشمیر کا بیج بویا جاتا ہے جو آج ایسا درخت بن چکا ہے کہ جس کے خوفناک سائے میں برصغیر کی عوام محرومی اور خوف کی فضامیں صرف زندہ ہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی اور جنگ بندی لکیر مقرر کی گئی اور قراردادوں میں دوطرفہ عہد و پیماں ہوئے کہ ریاست کا مستقبل عوامی استصوابِ رائے سے طے کیا جائے گا تاہم وعدہ التوا کا شکا ر ہو کر لگ بھگ 70سال پر محیط ہوا پروفا نہ ہوا۔ ایک طرف پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں آزاد کشمیر حکومت اور دوسری طرف بھارتی زیرِ انتطام کشمیر میں جموں کشمیر حکومت کا ایسا سلسلہ چل نکلا کہ جو دونوں متازعہ خطوں کی بجائے دو ممالک کی ایک متنازعہ خطے میں نمائندگی کا عکاس ہو کر رہ گیا۔
بھارت سے الحاق میں طے شدہ امور کے علاوہ بھارت نے وقت گزرنے کیساتھ ریاست کے اندرونی سیاسی، آئینی اور انتظامی امور میں بیحد تجاوز کیا اور اقوام متحدہ میں کیا رائے شماری کا وعدہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہواجس کی وجہ سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں استصوابِ رائے یا رائے شماری کے مطالبے پر وقفہ وقفہ سے کوئی نہ کوئی تحریک ابھرتی رہی تاہم اس میں مسلح جدوجہد کا عنصر مقبول بٹ کی قیادت میں 1960 ء کی دہائی میں شروع ہوا۔ 1984 ء میں بھارت کی تہاڑ جیل میں مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد ایک عارضی جمود آیا تاہم اس دوران لکیر کے آرپار نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے مقبول بٹ کے افکار یعنی خودمختار ریاست کی بحالی کو ہی مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل تسلیم کیا۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں1987 ء کے دھاندلی شدہ انتخابات کی وجہ سے ایک بار پھر مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا جس میں 1990 ء کے بعد شدت آئی اور وادیِ کشمیرآزادی کی جدوجہد کا مرکز بنا۔ چند ہی سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں شہادتوں ، قیدوبند اور انسانی حقوق کی پامالی میں آخری حدوں تک طاقت کا استعمال کیا گیا ۔ بعدازاں مسلح جدوجہد کا راستہ بدلتے ہوئے پُر امن جدوجہد کا آغاز ہوا جس نے خود بھارتی عوام اور سول سوسائٹی میں کافی پزیرائی حاصل کی ۔
اہل کشمیرکی اس پرامن جدوجہد کو بھی طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی تو گزشتہ چند برسوں میں ایک بار پھر نوجوانوں میں مسلح جدوجہد کا رحجان بڑھنے لگا۔ بائیس سالہ برہان وانی(پوسٹربوائے) بھی ایسا ہی نوجوان تھا جسے مورخہ 8 جولائی2016کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے شہید کیا تو احتجاج کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ج جو دو ماہ بعد بھی مسلسل جاری ہے اور اس میں 85سے زائدا فراد شہید ہوئے ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے پیلٹ گن اور جدید اسلحہ کا سفاکانہ استعمال کیا جس سے بے شمار بوڑھے ، بچے اور عورتوں کو شہید، زخمی اورمعذور کر دیا گیا جس بربریت کے خلاف ناصرف بھارتی طلباء ،انسانی حقوق کے نمائندگان ، سول سوسائٹی بلکہ بھارتی ایوانوں میں بھی آواز بلند ہوئی تو مجبوراً بھارت کو ایک پارلیمانی وفد کے ذریعے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا پڑا تاہم وادی کشمیر کے تمام آزادی پسند گروہوں نے بھارتی آئین کے تحت مذاکرات کو مسترد کردیا ہے اور اس وقت ہر جماعت ہر طبقہ کے لوگ صرف رائے شماری کا مطالبہ لے کر بھارتی افواج کے سامنے نہتے کھڑے ہیں۔ بھارت کے سیاسی اور سنجیدہ حلقوں میں ایک بار پھر ریاست جموں کشمیر کی سیاسی اور آئینی حیثیت پر بحث شروع ہوئی ہے اور ریاست کو زیادہ سے زیادہ اندرونی خودمختاری دیئے جانے کیلئے 1947 کے مشروط الحاق، متنازعہ حیثیت اور بھارتی یونین میں آئینی حیثیت پر صلاح مشورے اور تجاویز سامنے آنے لگی ہیں۔
دوسری طرف اسی متنازعہ ریاست کے پاکستانی زیر انتظام خطہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان ہے جسے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی آزادی کیلیے بیس کیمپ کہا گیاتھا ۔ اکتوبر 1947 ء سے آزادکشمیر میں ایک بے اختیار حکومتی ڈھانچہ موجود ہے۔ 1949 ء کے کراچی معاہدہ میں جہاں ایک طرف آزاد کشمیر کے 5000مربع میل پر حکومتی اور انتظامی اختیار پر سمجھوتا ہوا وہیں 28000مربع میل گلگت بلتستان کے تمام سیاسی و انتظامی امور مرکزمی حکومت(پاکستان) کے رحم و کرم پر رہنے دئے گئے ۔ 1947 ء سے آج تک ان دونوں خطوں میں محرومی کا شدید احساس پایا جاتا ہے۔ آزادکشمیر کو اس دوران کئی عارضی آئینی ایکٹ سے چلایا گیا جبکہ گلگت بلتستان میں ماضی قریب تک انگریزوں کا ایجنسی اور ایف سی آر (FCR) نظام قائم رہا ہے۔ دونوں خطوں میں وفاقی حکومت پاکستان کوئی بھی آئینی ، قانونی ، سیاسی ، حکومتی یا انتظامی تبدیلی لانے کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔ دونوں خطوں میں سیاسی آزادیوں پر کافی حد تک قدغن موجودہے ، بے اختیار مقامی حکومتوں کا مقامی وسائل پر کوئی اختیار نہیں اور صحت وتعلیم جیسی بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ آزادکشمیر کے موجودہ ایکٹ 1974 ء کے تحت حکومتِ پاکستان اقوام متحدہ کیطرف سے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے خطے کے دفاع ، خارجہ امور اور مواصلات کے امورپر اختیار رکھتا ہے جبکہ دیگر تمام امور کو حکومتِ آزادکشمیر چلائیگی لیکن اسکی عملی شکل کا تصور تک تلاش کرنا مشکل ہے۔ پاکستان میں اکیسویں ترمیم کے بعد پاکستان کے چاروں صوبوں کو بااختیار بنایا گیا تاہم آزاد کشمیر و گلگت بلتستان ایسی قسمت سے محروم ہیں ۔ شکوے شکائتوں کے باوجود بھی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے عوام نے بھارتی مقبوضہ کشمیر جیسی کوئی صورت پیدا نہیں کی بلکہ دھیمی سی آواز میں بالکل پرامن طریقے سے اپنے حقوق کا مطالبہ کئے جاتے ہیں۔
اب جبکہ بھارت میں ریاستی آئینی حیثیت اور زیادہ سے زیادہ اندرونی خودمختاری کا نسخہ ایک بار پھر زیرِ بحث ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی زیر انتظام ان دونوں خطوں کی آئینی و سیاسی حیثیت کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچا جائے۔ اس خطے کو بھی 1947-48کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے، ان دونوں خطوں میں تمام حقوق کی فراہمی ممکن بنائی جائے، پاکستانی پارلیمانی وفود کی بیرون ممالک میں آواز کو بہتر بنانے کے لیے ان دونوں خطوں سے بھی نمائندگی لی جانی چاہئے۔ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو ایک مشترکہ نظام میں پروتے ہوئے ریاستی وحدت کے اصول کی عملی تشکیل و تشہیر ہونی چاہئے۔ دونوں خطوں کی مشترکہ مقامی حکومت کو جمہوری اور وسائل میں بھی با اختیار ہونا چاہئے کہ وفاق سے فنڈز کی بحالی کیلئے سابق حکومتی وزراء کی طرح اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرہ نہ ہو، حکومت کو لینٹ افسران کی ماتحتی کی شکایت سے آزاد ہونا چاہئے تاکہ آئندہ یہاں کا کوئی وزیر اعظم اپنی بے اختیاری اور لاچارگی کا ماتم نہ کرے اور نہ یہ کہہ سکے کہ آزادکشمیر حکومت کو اسلام آباد سے چلایا جاتا ہے، بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ اور خصوصی حیثیت میں آزادکشمیر و گلگت بلتستان کی مشترکہ حکومت کو ریاست کی نمائندہ حکومت تسلیم کیا جائے جو بین الاقوامی محاذ پرمسئلہ کشمیر پر بھی خود نمائندگی کرسکے۔
میری ذاتی رائے میں وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق ہوتے ہوئے بین الاقوامی دنیا میں ریاست جموں کشمیر کے عوام کے لئے بشمول خودمختاری غیر محدود حقیقی حق خودارادیت کے حصول کیلئے وہی کردار ادا کرے جو پرتگال نے ایسٹ ٹیمور کی حمائت میں کیا تھا جس سے ناصرف آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں احساس محرومی کا ازالہ ہوگا بلکہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد کے شکار محکوم و مظلوم عوام کے زخموں پر بھی مرہم اور مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کی کوششوں میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا جسے بیرونی دنیا میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو محض سرحدی تنازعہ کی بجائے ایک خطے کی محکوم عوام کے پیدائشی حق آزادی کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے اور بلا شبہ یہی موقف بھارت کے اندر اور باہر دباو کیلئے ایک مضبوط ہتھیار بن سکے گا۔ مسئلہ کشمیر اور اس پر 1948 سے اپنائے گئے موقف پر نظر ثانی کے لئے شائد مناسب وقت اور حالات کا یہی تقاضا ہے۔