قارئینِ کرام ۔
دماغی امراض اور نفسیاتی عوارض کی دنیا میں گزشتہ چار پانچ عشروں سے ایک بیماری کا بہت زیادہ چرچا ہے ۔ اس بیماری کا معروف ترین نام “سٹاک ہوم سنڈروم” ہے ۔
علمِ جرائم کے ماہر چارلس مانٹیلڈو اس نفسیاتی عارضے کی تعریف یوں کرتے ہیں، “جب عورتوں اور مردوں کو ایک ایسی حالت میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کا اپنی تقدیر پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، وہ جسمانی ایذارسانی سے شدید طور پر خائف ہوتے ہیں اور یہ یقین کر بیٹھتے ہیں کہ سارا اختیار ان پر قابض قوتوں ہی کا ہے تو ان حالات میں زندگی گزارنے کا طرزِعمل ایک ایسے نفسیاتی ردِعمل کو جنم دیتا ہے جس کے تحت قابض کے لیئے ہمدردی اور غمگساری کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں” ۔
ماہرِ امراضِ نفسیات ڈاکٹر جوزف ایم کریور (پی ایچ ڈی) لکھتے ہیں، “ہر سنڈروم کے کچھ روئیے اور علامات ہوتی ہیں اور سٹاک ہوم سنڈروم بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔ اگرچہ ابھی تک ماہرین اور تحقیق کاروں کی مختلف آراء کے باعث ایک واضع فہرست ترتیب نہیں دی جا سکی تاہم اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ سٹاک ہوم سنڈروم میں مظلوم، محکوم اور مقبوض لوگ اپنے اوپر قابض، غاصب اور جارح کے لیئے ہمدردی اور محبت کے ایک جذباتی اور نفسیاتی رشتے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اور اس رشتے کی تخلیق کا نفسیاتی مقصد مسلسل قبضے اور خوف کے ماحول میں زندہ رہنے کی تدابیر اختیار کرنا ہوتا ہے” –
ڈاکٹر جوزف بیان کرتے ہیں کہ سٹاک ہوم سنڈروم کی نفسیاتی بیماری کو جنم دینے کے لیئے چار بنیادی عوامل کی موجودگی ضروری ہے:
۔ قابض کی طرف سے مسلسل ایسے خوف کی فضاء کی موجودگی جسے مقبوضین اپنے جسمانی اور نفسیاتی وجود کی بقاء کے لیئے خطرہ تصور کرتے ہوں ۔
۔ قابض کی طرف سے مقبوضین کے لیئے معمولی نوعیت کے احسانات کی موجودگی ۔
۔ مقبوضین کی اپنے جیسے لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگوں سے میل جول کی عدم موجودگی ۔
۔ مقبوضین کا یہ خیال کہ وہ نجات حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں” ۔
سٹاک ہوم سنڈروم کو زندہ رہنے کا شناختی سنڈروم بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ دراصل ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جس کا مظلوم، محکوم، مجبور اور بے بس عوام شکار ہو جاتے ہیں ۔
اس نفسیاتی مرض میں مقبوضین کے دلوں میں اپنے قابضین کے بارے میں مثبت احساسات اور گرمجوشی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ زیرِعتاب لوگ اپنے حقیقی دوستوں اور ان لوگوں کے بارے میں منفی احساسات اور جذبات اختیار کر لیتے ہیں جو انہیں آزادی یا نجات دلانا چاہتے ہیں ۔
محکوم اور مقبوضہ عوام کے دلوں میں اپنے قابضین کے روّیوں اور نظریات کے لیئے مدد اور اعانت کے جذبات اس طرح جنم لے لیتے ہیں کہ لوگ انہی نظریات اور روّیوں کو اپنانا شروع کر دیتے ہیں ۔ حتیٰ کہ قابضین کے لیئے مقبوضین کے دلوں میں جذباتی طور پر مددگارانہ روّئیے جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں اور مقبوضہ عوام قابض قوتوں کی عملی مدد کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ مقبوضین کسی ایسی کاوش اور جدوجہد کی اعانت کرنے سے انکاری ہوتے ہیں جو انہیں آزادی اور نجات دلا سکتی ہے ۔
میں نے اس بیماری کی بارے میں جتنی جانکاری حاصل کی ہے اس سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام بھی سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے اوپر ہونی والی زیادتیوں اور ظلم کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود ان زیادتیوں اور مظالم کے خلاف کوئی جدوجہد کرنے کے بجائے ان لوگوں کا مسلسل ساتھ دئیے چلے جا رہے ہیں جو یہ مظالم اور زیادتیاں کر رہے ہیں ۔
سٹاک ہوم سنڈروم کے جڑ پکڑنے میں وقت انتہائی اہم عنصر ہے ۔ جس قدر وقت طویل ہو گا عارضے کی شدت بھی اسی قدر زیادہ ہو گی ۔ اور ریاستی عوام پر چونکہ ظلم، جبر اور قبضے کی یہ فضاء ایک طویل عرصے سے چھائی ہوئی ہے اس لیئے عوام میں اس بیماری کے جرثومے نہ صرف یہ کہ گھر کر چکے ہیں بلکہ ان جرثوموں نے ٹیوبر کلوسس کے جرثوموں کی طرح اپنے گرد مضبوط حفاظتی خول چڑھا لیئے ہیں ۔
عوام کو اس نفسیاتی کیفیت میں سے نکالنے کے لیئے ضروری ہے کہ ڈاکٹر جوزف نے اس بیماری کے لیئے جن چار بنیادی عوامل کی نشاندہی کی ہے اُن عوامل کے طلسم، سحر اور دائری وجود کو توڑا جائے ۔
میں تمام محبِ وطن، قوم پرست اور تعلیم یافتہ ریاستی باشندوں کو دعوت دیتی ہوں کہ وہ ریاست جموں و کشمیر پر بیرونی قبضے کے عوامل و عناصر کی بیخ کُنی کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی عوام کو سٹاک ہوم سنڈروم کے مرض کی نوعیت سے بھی متعارف کروائیں اور عوام کو اس سنڈروم سے نجات دلانے کے لیئے عملی اقدامات بھی اٹھانا شروع کریں ۔
تحریر ۔ ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔