فروری کے سارے مہینے میں ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی اور قومی تاریخی کیلنڈر میں صرف دو دن ھیں جن کی کوئی اہمیت ہے ۔ ایک 11 فروری کا دن جب 1984 میں اس دن بابائے قوم حضرت مقبول بٹ کو تہاڑ جیل دبلی میں بھارت نے پھانسی کے تختے پر لٹکا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے امر کر دیا ۔ اور دوسرا دن 18 فروری کا ہے جس دن 1938 میں کشمیر وادی کے ایک گاؤں تریہگام میں بابائے قوم نے جنم لیا ۔ریاست جموں و کشمیر کے باشندے فروری میں ان دو دنوں کو ہی سیاسی مقصدیت اور قومی یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں ۔
ان حالات میں 5 فروری 1990 سے پاکستان نے مقبول بٹ کے یومِ شہادت سے محض پانچ دن قبل سیاسی تقریبات اور قومی تعطیل کا اعلان کر کے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے جذبات اور قائدِ کشمیر مقبول بٹ شہید کے ساتھ ریاستی عوام کی عقیدت کا بھونڈا اور طنزیہ تمسخر اڑایا ہے ۔
فروری کی 5 تاریخ کو عام تعطیل کا اعلان کر کے پاکستان نے شہیدِ اعظم مقبول بٹ شہید کی شہادت اور قربانی کی اہمیت کو کم کرنے کی سازش کی ہے ۔
میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ اس قومی مذاق پر پاکستان کی مذمت کریں اور مطالبہ کریں کہ اگر پاکستان نے ریاستی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے تو وہ 11 فروری کو کرے ۔ 5 فروری کا ڈرامہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیئے 14 اگست کے بجائے 9 اگست کو پاکستان کا قومی دن منانا شروع کر دے، اس دن عام تعطیل کی جائے مگر 14 اگست کا خاموشی سے گزارے اور پھر دعویٰ کرے کہ 9 اگست کا دن پاکستان کے یومِ آزادی کے طور پر منایا ہے ۔ کیا یہ پاکستان کے ساتھ یکجہتی ہو گی یا پاکستانی عوام کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق؟
ریاستی عوام کسی کو اپنے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی اس طرح اجازت نہیں دے سکتے ۔
اس لیئے 5 فروری کے ڈرامے کی بھرپور مذمت کی جائے ۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔