گلگت بلتستان کے عوام سے انکی جموں و کشمیر کی ایک بہن کی اپیل ۔
بریانی میروں کی
چائے وزیروں کی
کھانا عمران کا
ووٹ بابا جان کا
عوامی طاقت اور قوت کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے
ووٹ نے صرف بابا جان کے بیلٹ باکس میں جانا ہے
ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 4 جنوری 2010 کے دن دریائے ہنزہ میں بڑے بڑے پہاڑی تودے گرنے کی وجہ سے دریائے ہنزہ نے عطا آباد کے مقام پر ایک جھیل کی شکل اختیار کر لی ۔
اس لینڈ سلائیڈنگ اور اس کے نتیجے میں بننے والی جھیل کے باعث کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور ہزاروں لوگ اپنے گھر بار اور شاہراہ قراقرم کے غرقاب ہونے کے باعث باقی دنیا سے کٹ کر پہاڑوں میں بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ۔
گلگت بلتستان پر قابض پاکستانی حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے وسائل سے غرض ہے ۔ اس لیئے حکومت نے عطا آباد جھیل کے متاثرین کے لیئے کسی قسم کے فوری امدادی پیکج کا اعلان نہ کیا ۔
اس صورتحال میں گلگت بلتستان عوامی ورکرز پارٹی کے نائب صدر بابا جان (جن کا تعلق وادی ہنزہ کے علاقے نصیرآباد کے ساتھ ہے) نے عطا آباد جھیل کے متاثرین کے مسائل کے حل کے لیئے تحریک چلائی اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ لینڈسلائیڈنگ اور جھیل کے متاثرین کی آبادکاری کی خاطر امدادی پروگرام مرتب کرے ۔
بابا جان کی تحریک کے نتیجے میں حکومت نے امداد فراہم کرنے کے لیئے 457 خاندانوں کی ایک فہرست مرتب کی مگر اس فہرست میں 25 حقدار خاندانوں کو شامل نہ کیا گیا ۔ بابا جان نے ان 25 خاندانوں کے حقوق کے لیئے ایک نئی تحریک کا آغاز کیا ۔
بابا جان نے 11 اگست 2011 کو ہنزہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر علی آباد میں ایک احتجاجی جلوس نکالا ۔ اس جلوس نے اس شاہراہ کو بند کر دیا جس پر اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے سفر کرنا تھا ۔ جلوس کو منتشر کرنے کے لیئے پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بےدریغ استعمال کیا مگر مظاہرین منتشر نہ ہوئے ۔ پولیس نے وزیرِ اعلیٰ کے قافلے کے سفر کو جاری رکھنے کے لیئے پرامن جلوس کے نہتے شرکاء پر فائرنگ کر دی ۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں ایک 22 سالہ نوجوان افضل بیگ شہید ہو گیا ۔ افضل بیگ کا والد شیراللّہ جب اپنے جواں سال بیٹے کی لاش اٹھانے کے لیئے گیا تو اس پر بھی فائرنگ کی گئی اور وہ بھی شہید ہو گیا ۔
جب ان شہادتوں کی اطلاع عوام کو ملی تو عوام نے ہنزہ وادی کے متعدد شہروں میں مظاہرے کیئے جن کے دوران بہت سی سرکاری عمارتوں اور پولیس اسٹیشنوں کو نذرِآتش کر دیا گیا ۔
بابا جان نے ان دو شہادتوں کے بعد حکومت کے خلاف تحریک کو اور زیادہ منظم کیا اور مطالبہ کیا کہ ان شہادتوں کے ذمہ دار پولیس اہلکاران کو گرفتار کیا جائے ۔
جب تحریک نے زور پکڑا تو پولیس نے بابا جان اور ان کے چند اہم ساتھیوں کو انسدادِ دہشت گردی کے ظالمانہ سامراجی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا ۔
پولیس نے گرفتاری کے بعد بابا جان کو چارپائی پر تان کر چار گھنٹے مسلسل ان کے پاؤں کے تلووں کو پیٹا اور پھر تین دن تک مسلسل انہیں بھاری بوٹوں کے ساتھ کچلا گیا ۔ عدالت کے حکم کے باوجود پولیس نے بابا جان کو طبی امداد فراہم نہ کی ۔
بعد ازاں پولیس نے بہت سے مظاہرین کو رہا کر دیا مگر پانچ گرفتار شدگان بابا جان، افتخار حسین، امیر خان، راشد منہاس اور امیر علی کو رہا نہ کیا گیا اور ان کے خلاف اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا گیا ۔
پولیس نے 27 جون 2012 کو راشد منہاس اور امیر علی کو بھی رہا کر دیا مگر پولیس اور فوج کی مشترکہ تفتیشی ٹیم نے 20 جولائی 2012 کو بابا جان اور افتخار حسین کو گلگت جیل سے اغواء کر لیا اور فوجی عقوبت خانے میں ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا ۔
عوام کے شدید احتجاج پر بابا جان اور افتخار حسین کو بازیاب کر کے واپس گلگت جیل میں لایا گیا ۔
بابا جان نے ان تمام مظالم اور وحشیانہ تشدد کے باوجود اپنے ضمیر کا سودا نہ کیا ۔ چنانچہ
انسدادِدہشت گردی کی عدالت نے 26 ستمبر 2014 کو بابا جان اور ان کے گیارہ ساتھیوں کو حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی ۔
یوں بابا جان، افتخار حسین، امیر خان اور انکے دیگر ساتھی ابھی تک عوام سے محبت کی پاداش اور اس ظالمانہ سامراجی عدالتی کاروائی کے نتیجے میں قید و بند کی صعوبتیں تو برداشت کر رہے ہیں مگر دنیا کی نظروں میں بابا جان اور ان کے ساتھی افتخار حسین اور امیر خان ضمیر کے قیدی اور گلگت بلتستان پر پاکستان کے ظالمانہ جبری قبضے کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کر ابھرے ہیں ۔
بابا جان نے جیل میں سے 2015 کے انتخابات میں عوامی ورکرز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت میں ہنزہ کے رئیس اور پاکستان مسلم لیگ نون کے امیدوار میر غضنفر علی کے مقابلے میں حلقہ نمبر 6 سے انتخاب لڑا اور اپنے خلاف تمام تر ریاستی طاقت اور وسائل کے استعمال کے باوجود الیکشن میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کیئے ۔
نومبر 2015 میں پاکستانی حکومت نے میر غضنفر علی کو گلگت بلتستان کا گورنر بنا دیا ۔چنانچہ جی بی ایل اے 6 کی اسمبلی کی نشست خالی ہو گئی جس پر 28 مئی 2016 کو دوبارہ انتخابات ہو رہے ہیں ۔
میں ہنزہ کے غیرتمند عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ دنیاوی مادی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ان انتخابات میں اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیں ۔
وہ فیصلہ کریں کہ ووٹ کا اصل حقدار کون ہے؟
وہ میر خاندان جو عوام سے ووٹ لے کر عوامی ووٹوں کی طاقت کے سہارے اپنے لیئے مراعات اور مالی مفادات اور جاہ و جلال اور حکومت و ثروت حاصل کرتا ہے یا وہ بابا جان جو عوام کے حقوق اور ان کے مسائل کے حل کے لیئے آواز بلند کرنے کے جرم میں پولیس اور فوج کے مظالم برداشت کرتے ہوئے مسلسل زنداں کی سلاخوں کے پیچھے سے عوام کے ضمیر اور انکی غیرت کے جاگنے کا منتظر ہے ۔
میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماوں اور انتخابی امیدواروں سے بھی مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ عوامی حقوق اور مسائل کی خاطر بابا جان کی بے مثال قربانیوں کے اعتراف اور اعزاز میں انتخابات میں بابا جان کے حق میں دستبردار ہو جائیں اور بابا جان کی حمایت کا اعلان کریں ۔
میں عوام سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار بابا جان کے حق میں دستبردار نہیں ہوتے تو ان کو یکسر مسترد کر دیا جائے اور عوامی قوت و طاقت کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے ۔
عوام کو سمجھنا چاہیئے کہ انتخابات میں اصل مقابلہ پاکستان کے کاسہ لیس حکمرانوں اور عوامی حقوق کی خاطر پابندِ سلاسل ہونے والے بابا جان کے درمیان ہے ۔
ایک طرف حکومت ہے اور دوسری طرف بابا جان ۔
ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے امیدوار عوام کی قوت کو تقسیم کر کے صرف اور صرف حکمران جماعت اور حکمران خاندان کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ۔ اس لیئے عوام کو اس بار اپنی طاقت کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے۔
عوام کو سوچنا ہے کہ میر غضنفر علی نے 2015 کے انتخابات میں ان سے ووٹ لے کر عوام کے لیئے کیا کیا ہے اور اپنی ذات کے لیئے کیا کیا ہے؟
میر غضنفر علی 2015 کے انتخابات میں عوام سے ووٹ لے کر گورنر بن بیٹھے ہیں ۔ میر غضنفر کا یہ اقدام عوام کی اور انکے ووٹوں کی توہین ہے ۔
میر غضنفر علی کو عوامی حمایت اور مدد پر فخر ہونے کے بجائے اقتدار کی کرسی زیادہ پیاری ہے ۔ میر صاحب نے گورنری کی خاطر عوامی ووٹوں کو لات مار دی ہے ۔ ایسے لوگ عوام سے ووٹ لے کر عوام کے مسائل اور حقوق کی خاطر کام کاج کرنے کے بجائے ساری دوڑ دھوپ اپنے مفادات کے حصول، مال و دولت سمیٹنے اور حکومت و مرتبہ حاصل کرنے کے لیئے کرتے ہیں ۔
اور سبھی جانتے ہیں کہ حکومت اور اقتدار حاصل کرنے کے لیئے ایسے لوگ نہ صرف اپنے ضمیر اور اصول بیچتے ہیں بلکہ عوام کے حقوق اور مسائل کا بھی سودا کیا جاتا ہے ۔
میں عوام سے توقع کرتی ہوں کہ وہ سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیں گے ۔
ان کے ووٹ کے حقدار میر ہیں جو پہلے ہی انکے ووٹوں کا سودا کر کے گورنری حاصل کر چکے ہیں یا پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار ہیں جو عوامی طاقت اور قوت کو تقسیم کر کے بالواسطہ طور پر میروں کو ہی فائدہ پہنچا رہے ہیں ۔
یاد رکھیئے ۔ ایک طرف حکومتِ وقت اور میر خاندان ہے اور دوسری طرف بابا جان ہے ۔
حکومت عوام کے ساتھ محبت کے جرم میں بابا جان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ۔
کب کہ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف عوامی طاقت کو تقسیم کر کے حکومت کو فائدہ پہنچا رہی ہے
اور
بابا جان عوام کی جاگی ہوئی روح کے ایاغوں کے فیصلے کا منتظر ہے ۔
فیصلہ عوام نے کرنا ہے ۔
ایک طرف حکومت اور میر خاندان
دوسری طرف عوام اور بابا جان
عوام کی قسمت کو جگانا ہے
بابا جان کو اسمبلی میں لانا ہے ۔
جموں و کشمیر کی ایک بہن اپنا آنچل پھیلا کر ہنزہ کے غیرتمند اور زندہ ضمیر عوام سے بھیک مانگتی ہے کہ وہ 28 مئی کو اپنا ووٹ صرف اور صرف بابا جان کو دیں ۔
یاد رکھیں چند لمحوں کی خطا اور غلط فیصلے صدیوں کی غلامی اور جبر مسلط کر دیتے ہیں ۔
ہنزہ کے غیور عوام اس دفعہ غلط فیصلہ نہیں کریں گے
بابا جان کے لیئے جیئیں گے بابا جان کے لیئے مریں گے
عوام کی طاقت اور قوت کے مظاہرے کی منتظر
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔