کشمیر (ساری ریاست بشمول جموں، وادی اور گلگت بلتستان) کبھی بھی پاکستان نہیں بنے گا ۔
پاکستان نے گلگت بلتستان کو دھوکہ اور فریب کر کے اپنے ساتھ ملایا تھا ۔ گلگت بلتستان کی ڈوگرہ حکومت سے علیحدگی میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ کرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب “شمشیر سے زنجیر تک” میں تمام تفصیلات بیان کر چکے ہیں ۔
1947 میں تو پاکستان کا گلگت بلتستان کے ساتھ کوئی جغرافیائی رابطہ تھا ہی نہیں ۔ گلگت بلتستان کی ڈوگرہ حکومت سے علیحدگی کے بعد پاکستان نے سازش کر کے انگریزوں کی مدد سے گلگت بلتستان پر قبضہ کیا تھا ۔
پاکستان کا جموں اور وادی کے اڑھائی اضلاع (میرپور، مظفرآباد اور آدھا پونچھ) پر بھی غاصبانہ قبضہ ہے جو پاکستان نے ریاست میں قبائلی داخل کر کے کیا تھا ۔ پاکستان کو اپنے زیرِ قبضہ ریاست کے تمام حصے چھوڑنے ہوں گے ۔
جو علاقے بھارت کے قبضے میں ہیں انھیں تو پاکستان قیامت تک حاصل نہیں کر سکتا ۔ اس لیئے پاکستان کو چاہیئے کہ وادی میں اپنے اسلحہ بردار ایجنٹوں کے ذریعے (جس کے باعث بھارتی افواج بھی کشمیریوں کو مارتی ہیں ) جاری کشمیریوں کا مزید قتلِ عام بند کرے اور ریاستی عوام کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دے ۔
اگر پاکستان نے اپنی پالیسی تبدیل نہ کی تو پاکستان کشمیر کو تو حاصل نہیں کر پائے گا ؛ ہاں البتہ بنگال کی طرح بلوچستان اور اپنے دیگر علاقوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔
پاکستانی حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں او
ر اپنی عوام کا معیارِزندگی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیئے ۔ وہ مظلوم اور مجبور عوام جن کی نہ عزت محفوظ ہے، نہ جان اور نہ مال ، وہ عوام جو علاج، تعلیم، انصاف کے حصول اور دہشت گردی کے خاتمے کی آس میں پل پل جیتے مرتے ہیں ۔ پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیئے ۔ دوسروں کے معاملات میں مداخلت آخر کب تک؟
میرا پاکستانی عوام کو بھی مشورہ ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو راہ راست ہر چلانے کے لیئے دباؤ ڈالیں اور کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔
(ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر)