یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے کہ پاکستان و بھارت کے بہت سے دانشور اور تاریخ دان مہاراجہ ہری سنگھ کی قابلیت، تدبر، سیاسی بصیرت، عوام دوستی، حب الوطنی اور بیش بہا انتظامی اہلیت و عدل کو اس کے فیوڈل خاندانی پسِ منظر اور بادشاہت کے جرم میں لپیٹ کر دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی علمی بددیانتی ہے اور تاریخ کے ساتھ ایسا من پسند کھیل کسی صورت میں بھی قابلِ معافی نہیں ہے ۔ میں مہاراجہ ہری سنگھ کی 55ویں برسی کے موقعے پر قارئین کرام کے سامنے مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصیت کے سیاسی اوصاف، قومی خصائل اور انتظامی پہلو اس امید پر پیش کر رہی ہوں کہ قارئین کرام ہر قسم کے مذہبی، لسانی، جغرافیائی اور سماجی تعصب سے اوپر اٹھ کر مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصیت کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کریں گے تاکہ ہم اپنی قومی تاریخ کے اس عظیم الشان باب پر پڑی بغض، منافرت اور تعصب کی گرد صاف کر کے قومی تاریخ کو جھوٹ اور تعصب کی ملمع کاری سے پاک کر سکیں ۔
مہاراجہ ہری سنگھ ریاست جموں و کشمیر کے تاج کا ایسا انمول اور نایاب ہیرا ہے جس کی شناخت صرف علم و عقل والے جوہری ہی کر سکتے ہیں ۔ مجھے کسی عام آدمی سے کبھی بھی یہ توقع نہیں رہی کہ وہ ہری سنگھ جیسے انمول موتی کی شناخت کر سکے گا ۔ خاص کر ان حالات میں کہ جب پاکستان نے اسلام کے نام پر ہماری تاریخ اور ہماری شناخت کا ستیاناس کر دیا ہے ۔
اسلام کے نام پر گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان نے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ انسانی تاریخ کے بدترین مظالم اور جبر میں شمار ہوتا ہے ۔
مذہب ہر انسان کا انفرادی مسلۂ ہوتا ہے اور ریاست کا کام صرف اتنا ہوتا ہے اور ہونا چاہیئے کہ وہ شہریوں کے مذاہب کے معاملات میں غیرجانبدار رہے ۔ اور یہ کارہائے نمایاں مہاراجہ ہری سنگھ کے علاوہ کسی بھی حکمران نے ہماری قومی تاریخ میں کبھی بھی سرانجام نہیں دیا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ کی پیدائش 23 ستمبر 1895 کو امر محل جموں میں جنرل راجہ سر امر سنگھ جموال کے گھر میں ہوئی ۔ ہری سنگھ اپنے والد کی واحد نرینہ اولاد تھی ۔
مہاراجہ ہری سنگھ جس کا پورا لقب و خطاب لیفٹیننٹ جنرل عزت مآب شری مان راجیشور مہاراجہ دھیرج شری سر ہری سنگھ اندر مہندر بہادر سپارِ سلطنت مہاراجہ جموں و کشمیر تھا ۔ مہاراجہ ہری سنگھ برِصغیر کے ان کل پانچ ریاستی حکمرانوں میں سے ایک تھا جسے برطانوی حکومت 21 توپوں کی سلامی پیش کرتی تھی ۔ یہ کسی بھی ریاستی حکمران کو دیا جانے والا سب سے بڑا برطانوی مرتبہ تھا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے صرف 8 سال کی عمر میں دہلی کے گرینڈ دربار میں لارڈ کرزن کے ساتھ اعزازی رفاقت کا مرتبہ حاصل کیا ۔ 13 سال کی عمر میں ہری سنگھ کو میو کالج اجمیر میں بھیج دیا گیا ۔ 1909 میں ہری سنگھ کے والد کی وفات کے بعد میجر ایچ کے برار کو ہری سنگھ کا انتظامی مشیر مقرر کیا گیا ۔ میو کالج کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے ڈیرہ دون امپیریل کیڈٹ کور سے فوجی تربیت حاصل کی ۔ 20 سال کی عمر میں مہاراجہ ہری سنگھ کو ریاستی افواج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا ۔
اپنے تایا پرتاپ سنگھ کی وفات کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے جب 9 جولائی 1925 کو ریاست جموں و کشمیر کا انتظام و انصرام سنبھالا تو اپنی تاجپوشی کے فوراً بعد اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ “میری پیدائش ایک ہندو گھرانے میں ہوئی تھی مگر آج کے بعد میرا مذہب انصاف ہو گا” ۔ دنیا کی تاریخ میں لاکھوں بادشاہ گزرے ہیں، ان میں سے بے شمار انتہائی منصف مزاج اور رحمدل بھی تھے اور انہوں نے بڑی شان اور عزت و توقیر کے ساتھ حکومت کی مگر ہری سنگھ تاریخِ عالم میں وہ واحد حکمران ہے جس نے انصاف کو اپنا مذہب قرار دیا اور پھر اس تاریخی جملے پر ہری سنگھ زندگی بھر قائم رہا ۔
ہری سنگھ نے اقتدار سنبھالتے ہی ریاست کے اندر پرائمری تک تعلیم کو لازمی قرار دیا اور بچوں کی شادیوں پر پابندی عائد کر دی؛ یہ وہ کارہائے نمایاں ہیں جو مہاراجہ ہری سنگھ سے آزادی حاصل کرنے والے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں آج بھی ایک خوبصورت خواب کا درجہ رکھتے ہیں ۔ حتیٰ کہ پاکستان اپنی آزادی کے ستر سال کے بعد بھی اس سنگِ میل کو عبور نہیں کر سکا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ برِصغیر کا پہلا حکمران تھا جس نے تمام مندروں، کنوؤں اور اشرافیہ کے لیئے مختص تمام مخصوص سہولیات کو ریاست کے ہر خاص و عام شہری کے لیئے کھولنے کا قانون نافذ کیا ۔ حتیٰ کہ ادنیٰ ذات کے ہندوؤں پر عائد تمام پابندیوں کو بھی ختم کیا اور اچھوت کے سماجی رواج کو قانونی جرم قرار دیا ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے جسم فروشی اور منشیات کے استعمال کو ممنوع قرار دیا؛ اور ایک قانون کے ذریعے بلتستان سے عورتوں کو دیگر علاقوں میں منتقل کرنے پر پابندی عائد کی ۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے 20 اپریل 1927 کو ریاست جموں و کشمیر میں باشندہ ریاست کا قانون نافذ کیا ۔ اس قانون کا نفاذ مہاراجہ ہری سنگھ کی فقید المثال سیاسی بصیرت، بلا تفریقِ مذہب عدل اور قائدانہ دور اندیشی کا ثبوت ہے ۔ باشندہ ریاست کے قانون نے نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی زمینوں اور جائیدادوں کو تحفظ فراہم کیا بلکہ ایک ایسے عملی نظام کی داغ بیل ڈالی جس نے لداخی، ڈوگرہ، کشمیری، بلتی اور دیگر ریاستی قومیتوں کی شناخت کو بھی مستقل تحفظ فراہم کیا ۔ اگر مہاراجہ ہری سنگھ نے باشندہ ریاست کا قانون نافذ نہ کیا ہوتا تو بہت پہلے کشمیری لوگ نہ صرف اپنی زمینوں اور جائیدادوں سے ہاتھ دھو چکے ہوتے بلکہ اپنی ثقافتی پہچان بھی کب سے گم کر چکے ہوتے ۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے 1928 میں ہائیکورٹ آف جموں و کشمیر کا قانون بنایا جس کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کے باشندگان کے تمام سیاسی اور بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی اور ہائیکورٹ اور سیشن کورٹس کا قیام عمل میں لا کر ان عدالتوں کو رِٹ پٹیشن کے اجراء کا اختیار دیا ۔ حتیٰ کہ عوام کو سرکار کے خلاف بھی رٹ پٹیشن کا حق دیا گیا –
جولائی 1931 میں سرینگر میں پولیس نے مشتعل مظاہرین پر گولی چلائی جس سے متعدد شہری ہلاک ہو گئے ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے اس واقعے پر سوموٹو ایکشن لیا اور واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیئے انگریز افسر کی قیادت میں ایک کمیشن بنایا جسے تاریخ میں گیلینسی کمیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، مہاراجہ نے اس کمیشن کی سفارشات پر دو ماہ کے قلیل عرصے میں عملدرامد کیا اور ذمہ دار پولیس افسروں کو تحت ضابطہ قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا ۔ قارئین کرام اب خود تجزیہ کر لیں کہ آج کے جمہوری اور عوامی دور میں کیا اس قسم کا انصاف اور ایسے انتظامی اقدامات ممکن ہیں؟ بہت سے قارئین کرام اس حقیقت سے بے خبر ہوں گے کہ 1931 کی اس تحریک کے لیڈر مولوی عبدالرحیم کو 1934 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے جج تعینات کیا ۔ مولوی عبدالرحیم کی یہ تعیناتی مہاراجہ ہری سنگھ کے عدل، میرٹ کی پاسداری اور سیاسی بغض و نفرت سے پاک انتظامی قابلیت کا انمٹ ثبوت ہے ۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے 1934 میں ریاست کے اندر پارلیمانی سیاست کو متعارف کیا اور ریاستی پارلیمنٹ پرجہا سبھا کے انتخابات منعقد کیئے ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے مرزا افضل بیگ جیسے قانونی ماہرین کو اپنی کابینہ میں شامل کیا ۔ مہاراجہ ہری سنگھ کو برِصغیر کا پہلا حکمران ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے ریاست کو ایک آزاد آئین عطا کیا جس کی بدولت ریاست کے اندر آزاد عدلیہ اور منتخب سیاسی نمائندوں اور ریاستی اسمبلی پرجہا سبھا کا قیام عمل میں آیا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے پہلگام، ڈچیگام اور گلمرگ جیسے سیاحتی مراکز تعمیر کر کے ریاست جموں و کشمیر کو عالمی سیاحتی نقشے پر روشناس کرایا ۔
جموں و کشمیر کی 86% آبادی مسلمان تھی مگر
مہاراجہ کے زمانے میں ریاست کے اندر کہیں بھی مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا نام و نشان تک نہ تھا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے دور میں اس امر کو یقینی بنایا کہ سیاسی مخالفین کو بھرپور سہولیات اور آزادی فراہم کی جائے ۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں (بلکہ 101 سالہ ڈوگرہ دور میں) سرکاری تحویل میں کسی کی ہلاکت کا ایک واقعہ بھی وقوع پزیر نہیں ہوا ۔مہاراجہ ہری سنگھ نے اس امر کو یقینی بنایا کہ سیاسی مخالفین ریاستی مشینری اور پولیس کے ہاتھوں کسی قسم کی زور زبردستی کا شکار نہ ہوں ۔
جب 1947 میں پاکستان اور بھارت دنیا کے نقشے پر ابھرے تو مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر کو بھوٹان، سری لنکا، برما اور نیپال کی طرز پر ایک آزاد و خودمختار ملک بنانے کا فیصلہ کیا ۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے علاوہ ریاست کے تمام سرکردہ سیاسی اور مذہبی قائدین ریاست کو بھارت یا پاکستان میں ضم کرنے کے لیئے سرگرمِ عمل تھے ۔ یوں آزاد و خودمختار ریاست جموں و کشمیر کے نظریئے کا خالق مہاراجہ ہری سنگھ ہے ۔
پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح اور دیگر پاکستانی قائدین اس امید میں تھے کہ ریاست کے عوام کی غالب مسلمان اکثریت کے باعث ریاست کو پاکستان میں شامل کر دیا جائے گا مگر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے اس توقع کے برعکس ریاست کو آزاد و خودمختار ملک بنانے کا فیصلہ کیا تو 22 اکتوبر 1947 کی رات کو پاکستان نے اپنے زر خرید غدار ریاستی سیاسی رہنماوں کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے مذہب کی آڑ لے کر قبائلی جتھوں اور باقاعدہ فوج کے ذریعے ریاست پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زیادہ معصوم اور نہتے ریاستی شہری قتل ہوئے، ہزاروں عورتوں کو اغوا کر کے پنجاب اور سرحد میں لے جایا گیا اور ہزاروں عورتوں کے ساتھ جبری نکاح کر کے انہیں زبردستی مسلمان بنا دیا گیا ۔ بچوں کے سامنے والدین کو اور ماں باپ کے سامنے ان کے جگر گوشوں کو کاٹا گیا ۔ بہنوں کے سامنے بھائیوں کو قتل کیا گیا اور بھائیوں کے سامنے بہنوں کی عزتوں کو تاراج کیا گیا ۔ یہ سب ریاست کو ہری سنگھ کے نظامِ حکومت اور ڈوگرہ حکمرانوں سے آزادی دلانے کے نام پر ہوا ۔
آج میں قارئین کرام کو مدعو کرتی ہوں کہ وہ خود تجزیہ کر لیں کہ ڈوگرہ دورِ حکومت بہتر تھا یا جو آزادی ہمیں 1947 میں دلوائی گئی اور اس آزادی کے نام پر جو نظامِ حکومت تشکیل دیا گیا وہ بہتر ہے ۔
آج مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت سے اسلام کے نام پر کاٹے جانے والے ریاستی علاقوں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو آزاد علاقے کہا جاتا ہے، ان علاقوں کو پاکستان نے 1947 میں آزادی لے کر دی ۔
کیا آزادی ایسی ہوتی ہے؟
اگر ان علاقوں کی اس موجودہ صورتحال کو آزادی قرار دیا جائے تو واقعی ہری سنگھ نے ریاست کو ایسی آزادی کی دولت سے مالامال نہیں کیا ۔ ہری سنگھ نے ریاست کو وہ آزادی نہیں دی جس میں پاکستانی فوج کا ایک نان کمیشنڈ افسر ریاست کے وزیر اعظم پر حکم چلاتا ہے ۔ جہاں پاکستان کے وزیر اپنی سرکاری حیثیت میں ریاست کے وزیراعظم کو پہاڑی بکرا قرار دیتے ہیں اور جہاں ریاست کے وزیر اعظم کو اپنی تنخواہ کے لیئے پاکستان کے سول سروس افسران کی منتیں کرنا پڑتی ہیں ۔ ہری سنگھ نے واقعی ایسی آزادی سے قوم کو محروم رکھا ۔ اور یہ بھی ہری سنگھ جیسے دوراندیش اور زیرک قائد کا ہم پر احسان ہے ۔ ورنہ آج ہم سب اپنی شناخت کھو کر پاکستانی مولویوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنے پنجاب کے شہروں میں اپنی پہچان گم کر چکے ہوتے اور ہمارے تمام خوبصورت سیاحتی مقامات اور سرسبز و شاداب وادیاں ملک ریاض جیسے پراپرٹی ڈیلروں کی ملکیت ہوتیں ۔
ہری سنگھ نے پاکستان کے حملے کے بعد بھی اپنی سیاسی حکمت عملی اور تدبر کے ذریعے ریاست کے تشخص اور اسکی حیثیت کو بھارت کے ساتھ الحاق کے باوجود برقرار رکھا ۔ اور بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے ذریعے ریاست کو الگ حیثیت و شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے آئینی تحفظ دیا ۔
ہری سنگھ پر نام نہاد متعصب اور جانبدار دانشور الزام لگاتے ہیں کہ اس نے ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا ۔ ایسی باتیں ہماری ریاستی تاریخ کو مسخ کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے ۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ ہری سنگھ ریاست کو آزاد و خودمختار ملک بنانا چاہتا تھا اور پاکستان نے ریاست پر حملہ کر کے ریاست کی آزادی و خودمختاری کے پلان کو ناکام بنایا ۔ پاکستان نے ریاست کو تقسیم کر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا اور جو علاقے بھارت کے کنٹرول میں چلے گئے ان علاقوں کو بھارت کے ہاتھوں ہری سنگھ نے نہیں شیخ عبداللہ نے فروخت کیا ۔
بھارت اور پاکستان کے تاریخ دان ہری سنگھ کے بغض اور دشمنی میں اس قدر جانبدار ہو جاتے ہیں کہ تاریخ کو بگاڑنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ قارئینِ کرام یاد رکھیئے ۔ ہری سنگھ نے ریاست کو بھارت کا حصہ نہیں بنایا ۔ بلکہ یہ کام شیخ عبداللّہ کا ہے ۔ ہری سنگھ کا بھارت کے ساتھ الحاق عبوری تھا اور اس الحاق کی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی رو سے ریاستی عوام نے توثیق کرنی تھی ۔
ہری سنگھ 1952 تک ریاست کا مہاراجہ رہا اور ریاست کا انتظامی ڈھانچہ مقبول سیاسی قیادت نے چلایا ۔ جب ہری سنگھ نے محسوس کیا کہ پاکستان اور بھارت اب ریاست کو کسی صورت میں آزاد و خودمختار نہ رہنے دینے پر متفق ہو گئے ہیں تو ہری سنگھ نے اپنے آپ کو ریاستی امور سے الگ کر لیا اور ریاست کا آئینی انتظام اپنے بیٹے یوراج کرن سنگھ کے سپرد کر کے خود گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔ یوں کرن سنگھ مہاراجہ ہری سنگھ کے جانشین کی حیثیت میں ریاست کے آئینی سربراہ کی حیثیت میں ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے مہاراجہ کے بجائے صدرِ ریاست کے منصب پر فائز ہوئے ۔
قارئین کرام ۔
ہری سنگھ 1952 تک ریاست کا مہاراجہ رہا ۔ مگر ہری سنگھ کے کھاتے میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کا بوجھ ڈالنے والے بھول جاتے ہیں کہ 1949 تک تو پاکستان نے اقوام متحدہ سے بھی ریاست جموں و کشمیر کے آزاد اور خود مختار رہنے کے حق کو ختم کروا دیا تھا ۔ تو پھر ریاست کی آزادی اور خودمختاری کا قاتل کون ہوا؟
ایک طرف ہری سنگھ تھا جو ریاست کے مستقبل کے حوالے سے ایک مردِآہن کی طرح بھارت، پاکستان اور اقومِ متحدہ کے سامنے ڈٹا ہوا تھا اور دوسری طرف شیخ عبداللہ اور سردار ابراہیم جیسے سیاسی رہنما تھے جو بھارت اور پاکستان کے ساتھ معاملات طے کر کے ریاست کو پاکستان اور بھارت کی جھولی میں ڈالنے کا فیصلہ کر چکے تھے ۔ فیصلہ اب قارئین کو کرنا ہے کہ ریاست کی آزادی و خودمختاری کا تصور کس نے پیش کیا اور کس نے عملاً ریاست کو آزاد و خودمختار ملک کے طور پر زندہ رکھنے کی جدوجہد کی؟
ریاست کی آزادی اور اس کے تشخص و شناخت کو قائم رکھنے کا ہری سنگھ کا عزم اتنا پختہ اور غیر متزلزل تھا کہ ہری سنگھ کی زندگی میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھارت آئینی طور پر ریاست کے صدر اور وزیرِ اعظم کے منصب ختم نہ کر سکا اور ہری سنگھ کی زندگی میں ہری سنگھ کا بیٹا کرن سنگھ بھی ریاستی صدر کی حیثیت میں کسی ایسے قانون پر دستخط کرنے کی جراءت نہ کر سکا ۔
ریاست جموں و کشمیر کا یہ عظیم قائد اور ڈوگرہ دور کا آخری حکمران 26 اپریل 1961 کے دن فوت ہوا اور اسکی وفات کے ساتھ ہی ریاست جموں و کشمیر کو آزاد و خودمختار ملک بنانے کی جدوجہد بھی ماند پڑ گئی ۔
جو لوگ آج ریاست جموں وہ کشمیر کی کامل آزادی اور خودمختاری کے اس عظیم سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں ان سے میں توقع کرتی ہوں کہ وہ اپنے سالارِ قافلہ کی کردار کُشی کی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے ہری سنگھ کی شخصیت کے حقیقی پہلو
دنیا کے سامنے لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے ۔
بے شک سچ کا سفر کسی ڈر اور خوف کے بغیر جاری رہے گا ۔
ثمینہ راجہ ۔ جموں و کشمیر ۔