(تحریر: شفقت راجہ، برطانیہ)
باشندہ ریاست شاہی سلطنتوں یا شاہی ریاستوں میں مستقل سکونت رکھنے والے عوام کو کہا جاتا تھا۔ گزشتہ ادوار کے شاہی نظام حکومت میں چونکہ بادشاہ مختار کل ہوا کرتا تھا اس لئے عوام کی حیثیت رعایا سے زیادہ بالکل نہ تھی جن کو امور ریاست و انتظام میں حصہ داری سے محروم رکھا جاتا تھا۔ لہذا برطانیہ اور اس کی نوآبادیات میں بھی یہی اصطلاع( باشندہ) استعمال ہوتی رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ریاست جموں کشمیر کے قیام اور معاہدہ امرتسر کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار میں مجھے بائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماء اور دانشور پروفیسر نذیر حق نازش کو سننے کا موقع ملا جس میں انہوں نے ریاست میں باشندہ ریاست قانون کا ذکر کرتے ہوئے اسے ریاست کا میگنا کارٹا ( Magna Carta) قرار دیا۔ تاریخی میگنا کارٹا 1215 میں انگلینڈ کے بادشاہ (جان John) اور باغی اشرافیہ کے درمیان حکومتی و انتظامی امور سے متعلقہ ایک مصالحتی معاہدہ تھا جو بظاہر کامیاب نہ ہو سکا تاہم اس کا اگلا مرحلہ1225میں ہنری3 ( Henry 3rd) نے مکمل کیا جس میں ناصرف معاشرے میں موجود مذہبی (چرچ) اور شہری آزادیوں کو تقویت ملی بلکہ شراکت اقتدار اور شہری حقوق کی بھی ضمانت دی گئی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر میں ڈوگرہ راج بھی اس دور کی سینکڑوں ہندوستانی ریاستوں میں مروجہ اسی بادشاہی نظام سے عبارت ہے جس میں والیء ریاست یا بادشاہ کی حیثیت مطلق العنان اور مختار کل کی تھی۔
بیسویں صدی کے آغاذ ہی سے ہندوستانی عوام میں سیاسی بیداری نے نئی انگڑائی لی تھی اور آنے والے دو عشروں میں سماج کے مختلف سیاسی گروہوں نے اپنی حیثیت کو منوانا شروع کر دیا تھاجس کا اثر برطانوی ہند سے نکل کر ریاستوں تک پھیل چکا تھا اور یوں ریاست جموں و کشمیر کی عوام نے بھی اس بادشاہی نظام کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ1925میں ریاست کا حکمران بنا جس نے مسند اقتدار سنبھالتے ہی ریاستی امور میں برطانوی سرکار کی بیجاء مداخلت پر قدغن کیلئے ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دئے اور ایک نئی سیاسی رسہ کشی کا دور شروع ہوا۔ ریاست کے عام لوگ ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ اور ان سیاسی و انتظامی امور سے بے بہرہ تھے تو ریاست کی مقتدر انتظامیہ زیادہ تر غیر ریاستی منتظمین اور افسران پر مشتمل تھی جو ریاست کے محدود پڑھے لکھے طبقے کیلئے اضطراب کا باعث بنا اور انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی جس کے نتیجے میں 20اپریل1947 کو باشندہ ریاست قانون کا نفاذ ہوا۔ اس قانون کے تحت جہاں ریاست کے پشتنی مستقل باشندوں کو شہری کی حیثیت حاصل ہو گئی بلکہ ملکیتی زمین کے حصول اور ریاستی ملازمتوں پر انکے ترجیحی حق کو بھی تسلیم کر لیا گیا تووہیں غیر ریاستی لوگوں پر اس ریاستی سر زمین پر ملکیت کے تمام غیر قانونی دروازے بند کر دئے گئے( یاد رہے کہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے بھی 1912میں مستقل باشندہ قانون(ملکی ، ریاستی ) نافذ کر دیا تھا اور آگے چل کر ریاست میں قانون ساز ادارہ کے قیام کی تجویز بھی رکھی تھی جس پر اس وقت عمل نہ ہو سکا )۔ جس طرح دنیا کے تما م بین الاقوامی دساتیر میں میگنا کارٹا کے وضع کردہ بنیادی اصولوں سے رہنمائی لی گئی ہے اسی طرح ریاست جموں و کشمیر کا باشندہ ریاست قانون ریاستی عوام کی جداگانہ شناخت اور حقوق کا ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ1947سے اپنی تقسیم اور متنازعہ ہو جانے کے بعد بھی یہ قانون پاکستانی و بھارتی زیر انتظام کشمیر(آزادکشمیر) کے آئین کا حصہ ہے اور جسے بھارتی آئین کے آرٹیکل A 35 نے بھی ضمانت دی ہوئی ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت کوئی بھی غیر ریاستی فرد ریاست کے اندر زمین کے ملکیتی حقوق حاصل نہیں کر سکتا تاہم زمین کے حصول کو اجازت نامہ اور دس سالہ مستقل سکونت کیلئے حکومتی رعایت نامہ سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ بھارت کی دائیں بازو کی قوتوں نے بھارتی آئین کی آرٹیکل 35Aاور آرٹیکل 370کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت اور خصوصاٌ باشندہ ریاست قانون کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے باقی ہندوستانیوں کیساتھ امتیازی سلوک قرار دیاتاہم وہاں کے ریاستی سیاسی اور سماجی حلقوں نے ہمیشہ اس قانون کی حمایت کی ہے۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے حصہ گلگت بلتستان میں ستر کی دھائی میں ذالفقار علی بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران ہی باشندہ ریاست قانون کو معطل کر دیا گیا تھا تاہم غیرمقامی آبادکاری میں اضافے کے باعث وہاں اس باشندہ ریاست قانون کی بحالی کیلئے آواز بلند ہوتی آئی ہے جسے اس متنازعہ ریاستی خطے کی آئینی و قانونی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بحال کیا جانا چاہئے۔ حد متارکہ (کنٹرول لائن)کے دونوں طرف جعلسازی اور بدعنوانی کے ذریعے باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ کے حصول اور بعض اوقات انکی تنسیخ کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں جس پر مختلف حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اکتوبر2014 سنٹرل بار مظفرآباد نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ گزشتہ دس سالوں سے جاری شدہ ریاستی شہریت کے سرٹیفیکیٹ کی تحقیقات کریں کیونکہ مہاجرین کشمیر مقیم پاکستان کے نام پر جاری ایسے سرٹیفیکیٹس میں خردبرد کا عنصر شامل ہے۔ اسی طرح بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھی آئے روز ایسی شکایات پر حکومت سخت اقدامات اٹھانے کے دعوے کرتی ہے۔
اکتوبر2015میں تو ضلع جموں کی انتظامیہ نے باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ کے حصول کو مکمل محفوظ (کمپیوٹرائزڈ ) کرنے کا اعادہ کیا تھاتاکہ غیرقانونی طریقے سے ریاستی شہریت کے حصول پر قابو پایا جا سکے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کثیر المذہبی و ثقافتی متنازعہ ریاست جموں کشمیر و لداخ کے دونوں منقسم و متازعہ حصوں کے عوام مختلف سیاسی نظریات کے حامل ہیں تاہم انکی باشندہ ریاست حیثیت ایک مشترکہ بندھن اور شناخت ہے۔ ریاست کے دونوں حصوں کی غالب اکثریت باشندہ ریاست قانون ، اس سے جڑی ریاستی شہریت اور اسکی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ قانون کو اپنے حقوق کا ضامن تصور کرتے ہیں اور اپنی اس مشترکہ قومی شناخت کو کسی بھی صورت کھونے کو تیار نظر نہیں آتے کہ جس میں ریاست کے تمام شہریوں کی حیثیت برابراور ریاست کے کسی بھی خطے ، مذہبی، لسانی یاثقافتی گروہ کو دوسرے سماجی گروہ پر کسی قسم کی کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے اور ہر شہری کے حقوق باشندہ ریاست قانون کے مطابق مساوی ہیں ۔ آج20 اپریل ہے اور آج سے لگ بگ90 سال قبل سے یہ قانون ہماری شناخت بن کر نگہبانی کر رہا ہے۔ اب ہمیں اس بات کو قبول کرلینا چاہئے کہ باشندہ ریاست جیسی قومی شناخت ہی ہماری ریاست اورباشندگان ریاست کو برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ممتاز کرتی ہے۔