کئی دہائیوں سے ہم روایات کے تابع ہیں سیاست کو عبادت کو شرافت کو صداقت کو یوں سمجھ لیں کے ہم نے زندگی کے ہر شعبہ میں اصلیت کو چھپا کر روایات کو اپنی زندگی کی صرف جز نہیں بلکہ کامل حیات سمجھ لیا ہے اور اس کے اثرات روز بروز نئی نسل پر گزرتے وقت کے ساتھ اپنی ہی زنجیر میں ہمیں سو لی پر لٹکا رہی ہیں
یہ روایات اس لنگوٹی کی طرح ہیں جو عین وقت پر ستر کے قابل نہیں رہتی . لیکن مست قلندر دھر رگڑا بھلا ہمارے ذہن پر ساون کے بادل کی طرح چھایا رہتا ہے
روایات کو عزت کے معیار کے پیمانے سے ماپ کر خاندانی رسومات سے ہم آہنگ کرنا کوئی ہمارے بد مست معاشرے سے سیکھے .
اور نام عین اسلام کے مطابق رکھا جاتا ہے جیسے توبہ توبہ کرتے رام جگت مہا کی داستانیں دم توڑ جاتی ہیں لیکن ہماری روایات اور بدمست رسومات ختم ہونے کا نام نہیں لیتی .
اگر ہم مسلمان ہیں تو قرآن ہمارے لیے ہے حدیث قدسی ہمارے لیے ہے صحابہ اکرام کے بتائے گئے راہنما اصول ہمارے لیے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہم اپنی روایات کے سامنے کسی سچائی کو کوئی اہمیت دیں .
زمانہ مریخ سے آگئے نکل گیا بیساکھی سنگراند بسانت خاندانی پردانہ وحشت میں ہم عزت اور وقار کے تقاضے تلاش کرتے ہیں .
جو سچائی اور حقائق کو مسخ کر کے ہماری نئی نسلوں کو کچل رہی ہیں . اور ہمارے لب خاموش ہیں جیسے عقل پر قفل اور ضمیر پر حرص کے جال لگے ہوں
حرف یہاں آکر دم توڑ دیتے ہیں …..
یہاں سب چلتا ہے …. ماں لیتے یہاں سب چلتا ہے لیکن یہ کب تک چلتا رہے گا … آخر کب تک