سوال یہ ہے آزادی کا باب کیا ہم آزادی کے اس کے صحیح مفہوم و معانی کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کی عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں؟ اسی سوال کا اگر جواب ڈھونڈا جائے تو نفی میں ملے گا کیونکہ ایک طرف کے ہم نے آزادی کے معنوں کو ہی نہایت محدود کر دیا ہے جیسے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کا مطلب الحاق پاکستان سے لیا جاتا ہے اور یہی پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں بھی ہو رہا ہے۔ اگر ”خودمختاری“ کے نعرے والی آزادی کی بات کریں تو پاکستان اس نعرے کو بھارت سے الحاق اور بھارت اس نعرے کو پاکستان سے الحاق کی خفیہ سازش کی شکل میں لے رہا ہے یوں ہم نے ہمیشہ ”آزادی“ جیسے عظیم مقصد کو نہایت ہی محدود رکھا اور عوام الناس کو اس کا مفہوم سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی اسے سمجھنے دیا۔ مثلاََ اس وقت پاکستان کے انتظامی کشمیر میں جتنی بھی خود مختار کشمیر کی حامی یا نیشنلسٹ جماعتیں ہیں وہ پاکستان کو گالیاں دیتی ہیں اور بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جتنی ہیں وہ بھارت کو گالیاں دیتی ہیں۔ جبکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارت شیوسینا اور دیگر انتہا پسند جماعتوں کے ذریعے اپنے الحاق کی راہوں کو مستحکم بنا رہا ہے جبکہ حالیہ انتخابات مین عوام نے بی جے پی کو ووٹ دیے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں پہلے یہ کام مسلم کانفرنس اور بعد میں پاکستانی جماعتوں نے گھس کر کرنا شروع کیا۔ اور یوں آزادی جو ایک عام فہم سا لفظ ہے اور کسی بھی مشروط اور حد کو نہیں مانتا کو ہم نے نہایت ہی پیچیدہ اور سنگین بنا کر نہایت ہی محدود کر دیا۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر کے ہمسایہ تین ایٹمی طاقتیں ہیں اور جغرافیائی لحاظ سے جموں کشمیر اپنی اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی دنیا سے رابطے میں رہنے کے لیے ان تینوں ریاستوں کی زمینی اور فضائی حدود کو استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ اس حوالے سے جموں کشمیر نیشنل لیگ کا ماننا ہے کہ
جب تک ریاست جموں کشمیر کے عوام بحیثیت مجموعی کوئی فیصلہ نہ کریں اس وقت تک اس قسم کے کسی بھی نعرے سے اجتناب کیا جائے۔
اقوام متحدہ کی قراردودوں کی روشنی میں خطہ کشمیر کو مکمل طور پر یا دو دونوں ممالک کو مجبور کرنے کی کوشش کی جائے کہ ریاست کی چاروں اکائیوں کو باہم ملا کر رائے شماری کروائی جائے۔
بغیر کسی بیرونی دباﺅ کے ریاست مین ایک بااختیار حکومت قائم کی جائے جو کہ ریاست کے شہریوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہے
زمینی حقائق کے برعکس نعرے لگانے کے بجائے عملاََ ریاست کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کیا جائے تاکہ فی الحال تو عوام کی بہتری کے لیے کام کیا جا سکے۔
جواد احمد پارس