اکیسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے حد تو یہ کہ اب انسان تاریخ عالم کے سہل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ مگر ایسے ہی دور میں دنیا مین ایک قوم ایسی بھی ہے جو سہل پسندی سے مکمل انکاری ہے۔ اس قوم کا ماننا ہے کہ انسان کو محنت و مشقت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ آدم کے دور مین گاڑیاں نہیں چلتی تھیں پل نہیں بنتے تھے۔ حتی کہ ہمارے اجداد نے کبھی گاڑیوں کا سفر نہیں کیا پل پر سے نہیں گزرے ۔۔۔۔ “پیو دادے ائی کیتا تہ اساں کیاں کماں بچ اڑم باواں” ۔۔۔ یہ پہاڑوں سے لڑھک کر مرنے، دریا مین ڈوب کر مرنے ۔ شام مین گدھوں کے طرح گھر کا سامان ڈھونے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ قدرت اس قوم پر اتنی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ قوم خود پر اتنی مہربان ہے کہ ہر پانچ سال بعد ایسے آقا منتخب کرنے میں اپنے بھائی کا گلا کاٹنے تک تیار ہو جاتی ہے جو ان کو انہی کے مزاج کی سہولیات فراہم کرے ۔ مثلا اس تصویر کو ہی لے لیجیے ہے نا ایڈونچر فل (مہم جوانہ)۔۔ صبح شام اڈونچر (مہم جوئی)۔ دن رات اڈونچر۔۔ ارے صاحب! غصہ مت ہوئیے۔۔ یہ اس قوم کی فطرت ہے ہمالین جو ٹھہری ہمالہ کے اونچے پہاڑوں میں ایسی قوم ہی پیدا ہو سکتی ہے عرب کے ریگستانوں میں پلوں کی کیا ضرورت۔۔ آج اقبال سے معذرت کرنے کو بڑا دل کر رہا ہے۔۔۔ جو آٹھ نو دہائیاں پہلے اس قوم کی حقیقت سے واقف نہیں تھا۔ جس خاک کے خمیر میں ہو آتش چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند کہی ہے نا غلط بات….. جواد احمد پارس
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments